یونان میں ہڑتال، پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں
11 مارچ 201024 گھنٹے دورانیے کی اس ہڑتال کی وجہ سے ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ اور اسکولوں سمیت دیگر ادارے بند ہیں جبکہ ہسپتالوں میں صرف ایمرجنسی سروس بحال ہے۔ ہڑتال کی وجہ سے ملکی اور بین الاقوامی پروازیں بھی متاثر ہیں۔
ملک گیر ہڑتال کے دوران پچاس ہزار سے زائد افراد نے یونانی دارالحکومت ایتھنز کی سڑکوں پر مارچ کیا۔ مارچ میں شامل نوجوانوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق جلوس میں شامل قریب دو سو کے قریب نوجوانوں نے ایتھنز کی پولی ٹیکنیک یونیورسٹی کے علاقے میں پتھراؤ کیا، جس کی وجہ سے بینکوں، ریستورانوں اور دکانوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ نقاب چڑھائے ان نوجوانوں کو منتشر کرنے کے لئے پولیس نے آنسو گیس کے شیل برسائے۔
جلوس میں شامل مظاہرین حکومتی اقدامات کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اس بحران کے ذمہ دار عوام نہیں ہیں، لہٰذا ان سے اس کی قیمت وصول نہیں کی جاسکتی۔ مظاہرین نے مختلف بینرز اور کتبے بھی اٹھا رکھے تھے جن میں سے کچھ پر درج تھا کہ فرانس ہمیں بحری آبدوزیں فروخت کرتا ہے، جرمنی جنگی ہوائی جہاز جبکہ ہم یونانی فاقہ کشی کا شکار ہیں۔
یونانی وزیراعظم جارج پاپاندریو ملک کو درپیش اس اقتصادی بحران کو ایک طرح کی ایمرجنسی سے تعبیر کر چکے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے حال ہی میں امریکہ کا دورہ کیا اور صدر باراک اوباما سے ملاقات بھی کی۔ منگل نو مارچ کو اپنے دورہ واشنگٹن کے دوران اس بحران سے نمٹنے کے لئے بین الاقوامی برادری اور خاص طور پر یورپی یونین کی امداد کے تناظر میں انہوں نے کہا، " ہماری خواہش ہے کہ ہمیں بین الاقوامی برادری سے کم شرح سود پر قرضہ مل جائے۔ اور یہ وہ معاملہ ہے جس کے لئے یورپی یونین سب سے مؤثر کردار ادا کرسکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں یورپی یونین اب اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔"
یونانی حکومت کی طرف سے اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لئے حال ہی میں ایک بچتی پروگرام کا اعلان کیا گیا تھا، جس سے 4.8 بلین یورو کی بچت متوقع ہے۔ اس پروگرام کے تحت تنخواہوں میں اضافہ اور پنشنیں معطل کرنے کے علاوہ دیگر اقدامات بھی شامل ہیں۔ حکومت کی طرف سے اس پروگرام کے اعلان کے فوری بعد چار مارچ کو بھی سرکاری ملازمین کی طرف سے ہڑتال کی گئی تھی۔
رپورٹ : افسر اعوان
ادارت : مقبول ملک