جرمن چانسلر کی یوکرینی جنگ میں دکھاوے کے امن کے خلاف تنبیہ
20 ستمبر 2023عالمی رہنما اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس میں شرکت کے لیے نیو یارک میں جمع ہیں، جہاں پہلے روز تقریباً 13 گھنٹے پر محیط اجلاس کے دوران 37 تقاریر ہوئیں۔
جرمن وزیر خارجہ کا کییف کا اچانک دورہ
امریکی صدر جو بائیڈن، جرمن چانسلر اولاف شولس، ترک صدر رجب طیب ایردوآن، برازیل کے صدر لولا ڈی سلوا، جاپانی وزیر اعظم فومیو کیشیدا اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی بھی نے منگل کے روز اجلاس کے پہلے دن جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔
امریکہ یوکرین کو یورینیم والا گولہ بارود فراہم کرے گا
’انصاف کے بغیر امن آمریت ہے‘
وفاقی جرمن چانسلر اولاف شولس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے اپنے خطاب کے دوران یوکرینی تنازعے میں امن کی تلاش کے حوالے سے کسی بھی ’مصنوعی یا دکھاوے کے حل‘‘ کے خلاف خبردار کیا۔
یوکرینی سرزمین کا ’ہر ایک سینٹی میٹر‘ واپس لیں گے، عمروف
انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے کییف کے خلاف جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا، ’’آزادی کے بغیر امن کو جبر کہا جاتا ہے۔ انصاف کے بغیر امن کو آمریت کہا جاتا ہے۔ ماسکو کو آخر کار یہ سمجھ لینا چاہیے۔‘‘
برطانیہ کا روسی واگنر تنظیم کو دہشت گرد گروپ قرار دینے کا فیصلہ
چانسلر شولس نے کہا کہ یوکرین کے لوگ ’’اپنی جانوں اور اپنی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں، اپنے ملک کی آزادی اور علاقائی سالمیت کے لیے، اور ان اصولوں کے تحفظ کے لیے بھی، جن کے لیے ہم سب نے اقوام متحدہ کے چارٹر میں عہد کر رکھا ہے۔‘‘
اولاف شولس نے مزید کہا، ’’یہ روس کے صدر ہی ہیں جو کسی بھی وقت محض ایک حکم دے کر اس (جنگ) کو ختم کر سکتے ہیں۔‘‘ وفاقی جرمن چانسلر نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات کی ضرورت کے بارے میں سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے موقف کی بھی حمایت کی۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کو ’’ایک کثیر القطبی دنیا کی حقیقت کی عکاسی کرنا چاہیے‘‘ اور اب تک ایسا نہیں ہوا ہے۔ یہ سب سے زیادہ سلامتی کونسل کی موجودہ ہیئت سے واضح ہو جاتا ہے۔‘‘
جرمن سربراہ حکومت نے کہا کہ انسانوں کے اعمال کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیاں بھی ہمارے دور کا سب سے بڑا عالمی چیلنج ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی بین الاقوامی ماحولیاتی فنانسنگ کے حوالے سے اپنے وعدوں کو پورا کر رہا ہے۔
اولاف شولس کے مطابق، ’’سن 2014 میں دو بلین یورو سے 2020 میں چار بلین یورو تک اور پچھلے سال ہم نے اپنا حصہ تین گنا کر کے چھ بلین یورو کر دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی بات پر قائم ہیں۔‘‘
ایران کا امریکہ پر یوکرین میں ’تشدد کے شعلوں‘ کو ہوا دینے کا الزام
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اپنے خطاب میں امریکہ پر الزام عائد کیا کہ وہ یورپی ممالک کو کمزور کرنے کے لیے یوکرین میں تشدد کے شعلے بھڑکا رہا ہے۔
صدر رئیسی نے کہا، ’’بدقسمتی سے یہ ایک طویل المدتی منصوبہ ہے۔‘‘ ان کا یہ بیان ایران اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق اور اس پر عمل درآمد کے دو دن بعد سامنے آیا۔
ابراہیم رئیسی نے اس بات پر اصرار کیا کہ یوکرین کی جنگ میں ایران غیر جانبدار ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہم دشمنی اور جنگ کے خاتمے کے لیے کسی بھی اقدام کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘
امریکہ کا الزام ہے کہ ایران روس کو یوکرین کے شہریوں پر بمباری کے لیے استعمال ہونے والے ڈرون فراہم کر رہا ہے۔ تاہم ایران کا کہنا ہے کہ اس نے یوکرین پر روسی فوجی حملے سے قبل ماسکو کو ’’بہت کم تعداد میں‘‘ ڈرون فراہم کیے تھے اور روسی حملے کے بعد اس نے ماسکو کو مزید ڈرون فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ترکی کا یوکرین سے متعلق امن کوششوں میں تیزی کا عزم
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے خود کو روس اور یوکرین کے مابین ثالث کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے اپنی سفارتی کوششیں تیز تر کر دے گا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں ترک صدر نے کہا، ’’ہم اپنے روسی اور یوکرینی دوستوں کو اس امکان کے ساتھ مذاکرات کی میز کے ارد گرد ہی رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس جنگ میں فاتح کوئی نہیں ہوگا اور امن میں کسی کی شکست نہیں ہو گی۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم یوکرین کی آزادی اور علاقائی سالمیت کی بنیاد پر سفارت کاری اور بات چیت کے ذریعے جنگ کے خاتمے کے لیے اپنی کوششیں تیز تر کر دیں گے۔‘‘
جب سے روس نے یوکرین پر فوجی حملے کے ساتھ اس جنگ کا آغاز کیا ہے، تب سے ہی ترک صدر ایردوآن نے ماسکو اور کییف دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے، جو کامیاب رہی ہے۔
ترکی نے نگورنو کاراباخ میں آذربائیجان کی مسلح کارروائی کا دفاع کیا
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اپنے خطاب میں نگورنو کاراباخ کے علاقے میں آذربائیجان کی طرف سے فوجی کارروائی کو اس کی علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے کیے گیا اقدام قرار دیا۔
جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ آرمینیائی نسل کی آبادی کی اکثریت والا خطہ نگورنو کاراباخ آذربائیجان کے خود مختار ریاستی علاقے کا حصہ ہے اور اس خطے کی کوئی بھی دوسری حیثیت ناقابل قبول ہے۔
انہوں نے کہا، ’’ہم آذربائیجان کے ساتھ مل کر اس نعرے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کہ ہم دو قومیں، ایک ریاست ہیں۔ ہر کسی کو آذربائیجان کی سرزمین پر ایک ساتھ رہنے کا حق تھا، بشمول آرمینیائی نسل کے باشندوں کے، اور یہی ہمارا بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔‘‘
آرمینیا اور ترکی نے کبھی بھی رسمی طور پر باہمی سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے اور ان کی مشترکہ سرحد سن 1990 کی دہائی سے بند ہے، حالانکہ حالیہ برسوں میں دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے کچھ آثار بھی نظر آئے ہیں۔
ص ز / م م (خبر رساں ادارے)