یہ افغانستان نہیں، امریکا اور عراق کے پیچیدہ باہمی تعلقات
28 جولائی 2021پیر چھبیس جولائی کو امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں امریکی صدر جو بائیڈن سے عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے ملاقات کی تھی۔ دونوں لیڈروں کی بات چیت کو 'اسٹرٹیجک ڈائیلاگ‘ کا نام دیا گیا۔
اس ملاقات میں دونوں ممالک نے سکیورٹی کے تناظر میں کئی اہم اقدامات اٹھانے کا بھی اصولی فیصلہ کیا۔ اس ملاقات کے بعد ایک مشترکہ بیان بھی جاری کیا گیا۔ اس بیان میں واضح کیا گیا کہ رواں برس عراق میں سے بھی امریکا اپنا جنگی مشن ختم کر دے گا۔
امریکا کا عراق میں اپنا جنگی مشن ختم کرنے کا اعلان
مشترکہ بیان
جو بائیڈن اور مصطفیٰ الکاظمی کی ملاقات میں کئی اہم نوعیت کے فیصلے لیے گئے۔ مشترکہ بیان کے مطابق امریکا اکتیس دسمبر سن 2021 کو عراق میں جاری اپنا جنگی مشن ختم کر دے گا۔
اس کے بعد دونوں ملکوں میں قائم سکیورٹی تعلقات کو عراقی فوج کی تربیت، مشاورت، معاونت اور انٹیلیجنس کے تبادلے میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ رواں برس کے اختتام پر عراق میں امریکا کا کوئی ایسا فوجی نہیں رہے گا جس کا کوئی جنگی کردار ہو گا۔
دونوں ملکوں نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ عراق میں امریکی فوجیوں کے زیر استعمال فوجی اڈے کلی طور پر عراقی فوج کے ٹھکانے ہوں گے اور ان میں اگر امریکی موجود بھی ہوں گے تو وہ عراقی قوانین کے تحت اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔
مشترکہ بیان میں صاف کہا گیا کہ عراق میں کوئی بھی غیر ملکی فوجی صرف اور صرف عراقی فوج کی انتہا پسند گروپ 'اسلامک اسٹیٹ‘ کی سرکوبی میں مدد کرے گا۔
اس معاہدے پر عراقی پارلیمنٹ یقینی بحث کرے گی لیکن اس کی منظور شدہ قرارداد پر عمل کرنا لازمی نہیں ہو گا۔
عراق اور شام میں امریکی اور اتحادی فورسز پر راکٹ حملے
ناراض عراقی
دونوں ملکوں میں طے پانے والا معاہدہ مبصرین اور عراقیوں کے لیے حیران کن نہیں تھا کیونکہ یہ جنوری سن 2020 میں ہونے والے بلاواسطہ مذاکراتی عمل کا منطقی نتیجہ تھا۔
گزشتہ برس تین جنوری کو ایران کے سینیئر فوجی جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی فوج کے سینیئر عسکری لیڈر ابو مہدی المہندس کو امریکی ڈرون حملے میں بغداد ایئر پورٹ کے نزدیک ہلاک کر دیا گیا تھا۔
یہ دونوں عسکری رہنما ایران کی حمایت یافتہ نیم فوجی عراقی تنظیم 'الحشد الشعبی‘ کے سینیئر کمانڈروں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی ہلاکت کے بعد عراق میں عام لوگوں نے امریکا مخلاف مظاہرے کیے اور ان مظاہرین کو کئی مقامی سیاستدانوں کی کھلی حمایت بھی حاصل تھی۔
نیا معاہدہ سفارتی تھیئٹر کا ایک نمونہ
معتبر امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے صدر جو بائیڈن اور وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی کے درمیان طے پانے والے نئے معاہدے کو سفارتی تھیئٹر کا ایک نمونہ قرار دیا ہے۔
سابق امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ چل بسے
ایک اور جریدے سیبیرین نیوز کا کہنا ہے کہ معاہدے کے کاغذ پر عراق میں متعین امریکی فوجیوں کی حیثیت کو بظاہر تبدیل کر دیا گیا ہے اور حقیقت میں کوئی بھی فوجی واپس طلب نہیں کیا جائے گا۔
سیبیرین نیوز نے تو یہ بھی کہا کہ یہ امریکی جنگی مشنوں میں حصہ لیتے رہیں گے بس ان کی موجودگی کو ایک نیا نام دے دیا گیا ہے۔
امریکی فوج کی ضرورت
لندن کے پالیسی انسٹیٹیوٹ چیتھم ہاؤس سے منسلک ریناد منصور کا کہنا ہے کہ زیادہ تر عراقی سیاسی رہنماؤں بشمول وہ جو کھل کر کہہ نہیں سکتے، اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ عراق میں امریکی فوج کی ضرورت ہے۔
منصور کا مزید کہنا ہے کہ چند عراقی لیڈروں کے ساتھ ساتھ کچھ فوجی جنرلز بھی خواہش رکھتے ہیں کہ امریکی فوج عراق کو چھوڑ جائے اور دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات بھی ختم کر دینے چاہییں۔
چیتھم ہاؤس کے ریسرچر کا کہنا ہے کہ عراق میں امریکی موجودگی دوسری یورپی ممالک کے لیے ایک چھتری ہے اور اگر امریکا نکل جاتا ہیے تو اس کی تقلید میں جرمنی بھی لامحالہ پیچھے ہٹ جائے گا۔
امریکا اور عراق امریکی افواج کے انخلاء پر بات چیت کے لیے تیار
منصور کے مطابق اگر ایسا ہوتا ہے تو عراق ایک کم تر ریاست کی شکل اختیار کر لے گی جو ساری دنیا سے کٹی ہو گی۔
ریناد منصور کا خیال ہے کہ خطے میں امریکا کا سب سے بڑا مخالف ایران بھی عراق کی ایسی حالت نہیں دیکھنا چاہتا کیونکہ دنیا پر کھلے ہوئے عراق سے ایران بھی مستفید ہوتا ہے۔
کاترین شائر (ع ح / ع ب)