’یہ کھیل شریعت سے متصادم ہے‘، افغان طالبان
13 ستمبر 2024افغانستان میں بر سر اقتدار طالبان نے گزشتہ ماہ کے اواخر میں مکسڈ مارشل آرٹس کو 'پرتشدد‘ اور 'شریعت سے متصادم‘ قرار دیتے ہوئے اس کھیل کے تمام پیشہ ورانہ مقابلوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔
اکیس سالہ خلیل رحمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''شروع میں جب ایک دوست نے مجھے بتایا کہ افغانستان میں مکسڈ مارشل آرٹس (ایم ایم اے) پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، تو مجھے یقین نہیں آیا لیکن جب میں کلب پہنچا تو میرے تمام دوست انتہائی مایوس تھے اور ظاہر ہے کہ میں بھی تھا۔‘‘
رحمان بین الاقوامی ایم ایم اے مقابلوں میں کامیابی حاصل کر کے 'دنیا میں افغانستان کا پرچم بلند کرنے‘ کا عزم رکھتے ہیں لیکن افغانستان میں اس کھیل کے تمام تر پیشہ ورانہ مقابلے منسوخ کر دیے جانے کے بعد وہ اور مشرقی کابل میں ان جیسے دیگر نوجوانوں کی پریشانی و بے زاری دیدنی ہے۔
جلاوطن افغان ویمن فٹ بال ٹیم کھیل میں واپسی کے لیے بے تاب
خواتین افغان ایتھلیٹس، اپنے ہی ملک میں غیر محفوظ
افغانستان میں مکسڈ مارشل آرٹس کے تربیتی اور شوقیہ مقابلے حفاظتی لباس کے ساتھ اب بھی منعقد کیے جا رہے کیونکہ کھلاڑی اب تک طالبان کی خیر و شر کا فیصلہ کرنے والی وزارت کے احکامات میں ان کھیلوں کے درست قواعد کے حوالے سے غیر یقینی کا شکار ہیں ہے۔
لیکن ابہام بھی ہے!
افغانستان کی اسپورٹس اتھارٹی نے فوری طور پر اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے تاہم اس اتھارٹی سے وابستہ ایک شخص نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا ہے کہ پابندی سے متعلق اس حکم نامے کا متن 'اس بارے میں مبہم ہے کہ اصل میں کس چیز پر پابندی عائد کی گئی ہے اور جنرل ڈائریکٹوریٹ آف اسپورٹس اینڈ فزیکل ایجوکیشن نے وضاحت کی درخواست کی ہے‘۔
افغانستان کی طالبان حکومت کو کسی بھی ملک نے اب تک باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے، جس کی وجہ سے بین الاقوامی مقابلوں میں افغانستان کی شرکت کا عمل کچھ پیچیدہ ہی ہے۔ لیکن حال ہی میں دیگر ممالک کے کھلاڑیوں کو افغانستان میں خوش آمدید کہا گیا۔
کرکٹ معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے، طالبان
’افغانستان قومی ایتھلیٹک فیڈریشن‘ کو ایک خاتون چلائیں گی
حکام نے خواتین کے کھیلوں میں حصہ لینے پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے اور مرد کھلاڑیوں کو ایک نئے اخلاقی قانون کے تحت ناف سے گھٹنے تک اپنے جسم کو ڈھانپنے کا حکم دیا گیا ہے۔
افغان نوجوان بے چین ہو رہے ہیں
کابل میں ایک تاریک تہہ خانے میں واقع ایک کلب میں تربیت حاصل کرنے والے بلال فضلی نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس پابندی کے نتیجے میں کلب آنے والے نوجوانوں کی تعداد میں فوری کمی دیکھ کر انہیں مایوسی ہوئی ہے۔
بلال فضلی نے کہا، ''سارے لڑکے ڈر گئے ہیں۔ حکومت کھیلوں پر پابندی لگانے کے بجائے غریبوں کی مدد جیسے دیگر اہم اچھے کام کر سکتی ہے۔‘‘
اکیس سالہ اس کھلاڑی نے مایوسی کے عالم میں مزید کہا، ''مجھے نہیں معلوم کہ کیا کرنا ہے، ہمارے پاس نوکریاں نہیں ہیں اور اگر ہم اپنی پسند کے کھیل بھی نہیں کھیل سکتے ہیں، تو شاید ہمیں اس ملک کو ہی چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘
ع ب/ ش ر (اے ایف پی، روئٹرز)