20 منٹ سن باتھ ، آسٹیوپوروسس سے مؤثر بچاؤ
21 اکتوبر 2014یہی وجہ ہے کہ ہر سال کی طرح اس برس بھی ہڈیوں کے بھربھرے پن یا آسٹیوپوروسس سے آگاہی کے عالمی دن کے موقع پر اس سے بچاؤ اور اس کی جلد تشخیص کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کے مطابق آسٹیوپوروسس، دل کے امراض کے بعد دنیا بھر میں سب سے زیادہ پایا جانے والا عارضہ ہے یعنی صحت سے متعلق دوسرا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس مرض میں ہڈیوں کی لچک میں کمی ہوتی ہے اور وہ بھربھرے پن اور نرم پڑ جانے جیسے مسائل سے دوچار ہو جاتی ہیں۔ اس سے ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں اور ان کے ٹوٹنے کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
پاکستان آرتھوپیڈک نامی تنظیم کے صدر ڈاکٹر پرویز انجم کے مطابق مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں یہ مرض زیادہ پایا جاتا ہے، ’’عورتوں میں 45 برس کی عمر کے بعد یہ مرض پیدا ہوتا ہے جبکہ مردوں میں 50 برس میں آسٹیوپوروسس ہوتا ہے۔ مردوں میں یہ بہت کم پایا جاتا ہے اور ان کے مقابلے میں عورتوں میں یہ 40 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔‘‘
سول ہسپتال کراچی سے وابستہ آرتھوپیڈک کنسلٹنٹ ڈاکٹر مراتب علی نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ایک حالیہ اسٹدی کے مطابق پاکستان میں 75-84 برس کی 97 فیٖصد خواتین جبکہ 45-54 برس کی 55 فیصد خواتین میں آسٹوپوروسس موجود ہے۔
سندھ گورنمنٹ ہسپتال کے آرتھوپیڈیک سرجری ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ سرجن ڈاکٹر حفیظ الرحمان کے مطابق ہڈیوں کا یہ مرض پاکستان کے دیہی علاقوں سے زیادہ شہروں میں پایا جاتا ہے، ’’عموماً ہمارے یہاں شہروں میں رہنے والے لوگ جن کا دھوپ میں نکلنا نہیں ہوتا، دودھ نہیں پیتے یا مچھلی نہیں کھاتے، ان لوگوں کو ہڈیوں کا مسئلہ ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین جو کھیتوں میں کام کرتی ہیں ان میں آسٹیوپوروسس کی شرح کم ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ ہم نے جتنا جدید لائف اسٹائل اختیار کیا ہے مثلاً ایئر کنڈیشنر میں سونا، دھوپ میں نہ نکلنا اور موٹاپے کے خوف سے مناسب غذا نہ لینا، تو ایسا کرنے والوں میں آسٹیوپوروسس پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘
طبی ماہرین کے مطابق آسٹیوپوروسس کی بعض دیگر وجوہات میں بڑھتی عمر، خاندان میں پہلے سے اس بیماری کا موجود ہونا، جسمانی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی عادت، خواتین میں ماہواری کا نہ ہونا، بہت زیادہ کیفین کا استعمال، کیلشیم کی کمی اور تھائرائڈ ہارمونز کے لمبے عرصے تک علاج وغیرہ شامل ہیں۔
ڈاکٹر حفیظ الرحمان کہتے ہیں کہ یہ ایک خاموش بیماری ہے جس کی علامات پر نظر رکھنی چاہیے، ’’اس کی علامات میں یہ ہوتا ہے کہ مریض ہڈیوں میں درد کی شکایت کرتا ہے اور عام طور پر بڑی عمر میں یا ماہواری کی بندش کے بعد مریض کو ٹانگوں یا ہاتھوں یا کمر میں درد ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جن لوگوں کو یہ مرض ہو چکا ہوتا ہے وہ اگر گرتے ہیں تو اٹھنے کی کوشش کے دوران ان کے ہاتھوں یا پیر کی ہڈی میں فریکچر ہو جاتا ہے جبکہ درحقیقت ہڈی اتنی کمزور نہیں ہوتی کہ ذرا سا زور پڑنے پر وہ ٹوٹ جائے۔ تاہم آسٹیوپوروسس کے مریضوں میں یہ شکایات ہوتی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر حفیظ کے مطابق ہڈیوں کے بھربھرے پن کا علاج بہت آسان ہے، ’اگر دواؤں سے بچنا چاہتے ہیں تو صرف بیس منٹ سن باتھ لیں۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ جسم سے کپڑا ہٹا کر سورج کی روشنی میں بیٹھ جائیں۔ اگر صرف بیس منٹ بھی ایسا کریں تو ہمارے جسم کی روزانہ کی وٹامن D3 کی جو ضرورت ہوتی ہے وہ اس سے پوری ہو جاتی ہے۔ یہ وٹامن ہڈیوں میں کیلشیم کو جمع کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ چونکہ ہماری جلد میں یہ وٹامن موجود ہوتا ہے تو سورج کی روشنی جسم پر پڑنے سے یہ ایکٹیو ہو جاتا ہے اور ہڈیوں تک کلیشم کو پہنچا دیتا ہے۔ اس لیے بیس منٹ روازنہ کا سن باتھ آسٹیوپوروسس سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔‘‘
طبی ماہرین کے مطابق ہر سال پاکستان میں ہڈی ٹوٹنے کے کئی کیسز رپورٹ ہوتے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ آسٹوپوروسس ہے۔ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے احتیاط کے علاوہ جسمانی سرگرمیوں اور غذا کی جانب توجہ دینا بھی نہایت ضروری ہے۔