2010ء: اقوامِ متحدہ کے تحت حیاتیاتی تنوع کا سال
11 جنوری 2010جرمنی آج کل اقوامِ متحدہ کے اُن بین الاقوامی مذاکرات کی قیادت کر رہا ہے، جوCBD یا کنونشن آن بائیو ڈائیورسٹی کے دائرے میں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے سلسلے میں جاری ہیں۔ جرمنی یہ فرائض ابھی اِس سال موسمِ خزاں تک انجام دے گا اور یہی وجہ تھی کہ اِس سال کی تقریبات کے افتتاح کا اعزاز بھی جرمنی کے حصے میں آیا۔
سن دو ہزار دو میں عالمی برادری نے یہ ہدف مقرر کیا تھا کہ سن دو ہزار دَس یعنی سالِ رواں تک حیاتیاتی تنوع کے خاتمے کے عمل کو مکمل طور پر روک دیا جائے گا۔ نہ صرف یہ کہ یہ ہدف حاصل نہیں ہو سکا بلکہ جانوروں اور پودوں کی انواع کے مرنے کا عمل اور بھی تیز ہو گیا ہے۔
اِس حوالے سے عالمی ذمہ داری کا ذکر کرتے ہوئے جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے برلن منعقدہ مرکزی افتتاحی تقریب سے اپنے خطاب میں کہا:’’مَیں چاہتی ہوں کہ اِس اجتماع سے پوری عالمی برادری کو یہ پیغام ملے کہ ہم سب کو زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنی قوتیں مجتمع کرتے ہوئے حیاتیاتی تنوع کے مؤثر بین الاقوامی تحفظ اور اُس کے زیادہ دیر تک استعمال پر ویسے تو ہمیشہ لیکن اِس سال کے دوران خاص طور پر زور دینا ہو گا۔‘‘
جرمنی نے سن دو ہزار بارہ تک جنگلات کے تحفظ کے لئے پانچ سو ملین یورو مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لئے جرمنی کی کوششوں کو WWF یعنی ورلڈ وائڈ فنڈ نے بھی سراہا ہے تاہم اِس تنظیم کے صدر ڈیٹلیف ڈرَینک ہاہن کے مطابق اب بھی جرمنی سمیت دُنیا بھر میں زراعت اور ماہی گیری جیسے شعبوں کو، جو قدرتی ماحول کی تباہی میں بڑا کردار ادا کر رہے ہیں، 670 ارب یورو سرکاری مالی اعانتوں کی مَد میں دئے جا رہے ہیں اور پیسے کا یہ مہلک استعمال بند ہونا چاہیے۔
اِس تنظیم کے صدر نے برلن میں کہا:’’اِس وقت انواع کے مرنے کی شرح میں ایک سو تا ایک ہزار گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ زمین کے جس دَور میں ہم سانس لے رہے ہیں، اُس میں اِس سے پہلے اتنی تیزی سے حیاتیاتی تنوع کے ختم ہونے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اور اِس تنوع کو ختم کرنے میں سب سے زیادہ ہاتھ انسان کا ہے۔‘‘
بلاشبہ حیاتیاتی تنوع کے خاتمے کا ایک قدرتی عمل بھی موجود ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرتی عمل کے مقابلے میں انسان انواع کے خاتمے کے لئے کم از کم ایک سو گنا زیادہ قصور وار ہیں۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک