2012ء میں ساڑھے چار ہزار پاکستانی بدامنی کی نذر
4 اپریل 2013ایچ آر سی پی کی ’’ 2012ء میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال’’ سے متعلق سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس مختلف مقدمات میں 242 افراد کو سزائے موت سنائی گئی۔
جمعرات کے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں سالانہ رپورٹ کا اجراء کرتے ہوئے ایچ آر سی پی کے عہدیداران کا کہنا تھا کہ حکومت نے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی تشکیل کے لیے قانون سازی تو کی لیکن اس پر عمل نہ ہو سکا۔ سالانہ رپورٹ کے اہم نکات کے مطابق 2012ء میں قبائلی علاقوں پر 48 ڈرون حملے ہوئے جن میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا اندازہ 240 سے 400 کے درمیان ہے۔ اسی عرصے کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں دہشتگردی کے حملوں میں 2050 افراد ہلاک جبکہ 3822 زخمی ہوئے۔ صرف بلوچستان میں 100 سے زائد ہزارہ شیعہ کو ہلاک کیا گیا۔
کراچی کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہاں گزشتہ برس لسانی، فرقہ وارانہ اور سیاسی تشدد میں کم از کم 2284 افراد مارے گئے۔ اس کے علاوہ فرقہ وارانہ دہشتگردی کے حملوں اور تنازعات کے 213 واقعات میں 583 افراد ہلاک جبکہ 853 زخمی ہوئے۔ تقریباً 20 احمدیوں کو نشانہ بنا کر قتل کیا گیا۔ انسانی حقوق کمیشن کے شریک چیئرپرسن کامران عارف کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ کی بنیادی ذمہ داری حکومت کی ہے، جسے بہتر انداز سے پورا کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب تک حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو برداشت کرے گی اوران کو روکنے کے لئے کوشش نہیں کرے گی تو خلاف ورزیاں بڑھتی جا ئیں گی۔ ایک تو یہ حکومت کی ذمہ داری بھی ہے اور دوسرا ہم ان سے امید بھی کرتے ہیں کہ وہ شہریوں کو مناسب تحفظ بھی دیں اور ایسے اقدامات کریں کہ جس سے نہ صرف یہ خلاف ورزیاں رکیں بلکہ جو مجرم ہیں ان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔
رپورٹ میں لاپتہ افراد اور جیلوں میں قیدیوں کی صورتحال کو بھی تشویشناک قرار دیا گیا ہے۔ کمیشن کے مطابق گزشتہ برس ملک سے 87 افراد کی گمشدگی کی اطلاعات موصول ہوئیں جن میں سے 72 افراد کا سراغ لگایا گیا یا انہیں رہا کر دیا گیا۔ بلوچستان سے کم از کم 72 افراد کی نعشیں برآمد ہوئیں جو گزشتہ کسی مہینوں سے لاپتہ تھے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی جیلوں میں 75 ہزار قیدی رکھے گئے تھے جہاں پر 44 ہزار قیدیوں کی گنجائش تھی۔ 2012ء میں 59 قیدی جیل حکام کی تحویل میں ہلاک جبکہ 81 زخمی ہوئے۔
رپورٹ میں آزادی اظہار کے باب میں کہا گیا ہے کہ 2012ء میں کم از کم 14 پاکستان صحافی ہلاک ہوئے۔ پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یو ٹیوب پر حکومتی پابندی کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے آزادی رائے اور معلومات تک رسائی کے حق کی شدید خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ بار کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بہت سے خراب رجحانات کے ساتھ ساتھ کچھ معاملات میں بہتری بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہتر رجحان بھی ہم نے دیکھا ہے کہ چا ہے جتنی بھی حکومتیں رہی ہوں چاہے وہ وفاقی ہوں یا صوبائی حکومتیں ہوں انکی پالیسی یہ نہیں تھی کہ لوگوں کو زدوکوب کیا جائے، ’’یہ ایک اچھا رجحان ہے اور میں سمھجتی ہوں کہ لوگوں نےاپنی تگ و دو سے ایک جمہوری نظام جو پیدا کیا ہے یہ اسکی ایک پیداورا ہے‘‘۔
رپورٹ میں سیاسی عمل میں شراکت کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ان حلقوں کے نتائج منسوخ کرنے میں جہاں 10 فیصد سے کم خواتین ووٹ ڈالیں گی اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے وعدے کی پاسداری میں ناکام رہا جبکہ احمدیوں کو بھی انتخابی عمل سے باہر رکھا گیا۔
تعلیم کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشتگردوں نے 121 سکولوں کو خواتین کی تعلیم کے مخالف دہشتگردوں نے نشانہ بنایا۔ ملک میں خواندگی کی شرح 58 فیصد رہی ، پرائمری سکول کے 25 بچوں میں سے 22 کا فیل ہونے یا پانچویں جماعت سے قبل سکول چھوڑنے کا امکان رہا جبکہ 59.6 فیصد سکول بجلی سے محروم رہے۔
رپورٹ کے آخر میں کہا گیا ہے کہ ساڑھے 7 لاکھ پاکستانی دہشتگردی اور دیگر مشکلات کی وجہ سے اندرون ملک ہجرت پر مجبور ہوئے۔
رپورٹ : شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت : شادی خان سیف