21 ماؤ نواز باغی ہلاک کر دیے، بھارتی پولیس
24 اکتوبر 2016نصف نصدی سے بھی زائد عرصے سے جاری ماؤ نوازوں کی بغاوت میں یہ رواں برس کا خونریز ترین واقعہ ہے۔ بھارتی پولیس کے مطابق مشرقی ریاستوں اوڑیسہ اور آندھرا پردیش کے سرحدی مقام پر 30 سے 40 ماؤ نواز باغیوں کا اجتماع تھا کہ اُس پر پولیس نے دھاوا بول دیا۔
بھارتی ریاست آندھرا پردیش کی پولیس کے ایک سب انسپکٹر سی کے دھاروا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’پولیس کو 21 لاشیں مل چکی ہیں۔ تلاش کا عمل بدستور جاری ہے۔‘‘ دھاروا نے مزید کہا کہ تلاش کا سلسلہ جاری ہے۔ جھڑپ کے بعد باغی اپنے پیچھے خاصا اسلحہ بھی چھوڑ کر فرار ہو گئے۔
بھارتی خبر رساں ادارے پی ٹی آئی نے ایک نامعلوم پولیس افسر کے حوالے سے بتایا ہے کہ خیال کیا جا رہا ہے کہ ایک سینیئر ماؤنواز باغی رہنما اور اس کابیٹا بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس جھڑپ میں دو پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے تاہم اس بات کی فوری طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔
بھارت میں ماؤ نوازوں کی طرف سے مسلح بغاوت کا آغاز 1960ء کی دہائی میں ہوا تھا۔ بھارت سے علیحدگی کے لیے یہ مسلح تحریک چین کے انقلابی رہنما ماؤزے تنگ سے متاثر ہو کر شروع کی گئی تھی۔ اس مسلح بغاوت کے سبب اب تک ہزارہا افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
بھارت کے سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ نے ماؤ نوازوں کی اس مسلح بغاوت کو ملک کے لیے سب سے بڑا داخلی خطرہ قرار دیا تھا۔ ماؤ نواز باغیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ زمین، ملازمتوں اور غریب قبائلی گروپوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
رواں برس جولائی میں بھارت کی مشرقی ریاست بہار میں ماؤ نوازوں کے ایک حملے میں بھارتی پیراملٹری فورس کے 10 کمانڈوز ہلاک ہو گئے تھے۔ حملہ آوروں نے پیراملٹری فورس کی گاڑیوں کے ایک قافلے کو نشانہ بنایا تھا۔
مارچ میں مشتبہ ماؤ باغیوں نے بھارت کی وسطی ریاست چھتیس گڑھ میں ایک بارودی سرنگ کے دھماکے کے ذریعے سات پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ماؤ نواز باغی بھارت کی کم از کم 20 ریاستوں میں متحرک ہیں۔