9 نومبر سن 1938 کی کرسٹال ناخٹ: جرمن یہودیوں کے لئے بھیانک رات
10 نومبر 2008ٹھیک ستر برس قبل نو اور دس نومبر سن انیس سو اڑتیس کی درمیانی رات کو جرمن نازیوں نے یہودیوں کے خلاف باقاعدہ طور پر پر تشدد کارروائیوں کا آغاز کیا۔ جسے کرسٹال ناخٹ کے نام سے یا د کیا جاتا ہے۔ تاریخی حوالے سے اس رات کو بہت اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس واقعہ کے بعد ہولو کوسٹ یا یہودیوں کے قتل عام کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ریاستی سطح پر یہودیوں کی نسل کشی اس رات کے ایک سال بعد سن انیس سو انتالیس کو شروع ہوئی۔
کرسٹل ناخٹ کے لفظی معنی
کرسٹل ناخٹ کے لفظی معنی ہیں "کرسٹل کی رات"۔ اِس سے عمومی مراد "ٹوٹے ہوئے شیشوں کی رات" ہے۔ یہ اصطلاح 9 اور10 نومبر 1938 کی درمیانی رات کو تمام تر جرمنی، اور اُس وقت کے مقبوضہ آسٹریا اور جرمن فوجیوں کے زیر قبضہ چیکوسلواکیہ کے علاقے Sudetenland سوڈیٹن لینڈ میں کی جانے والی یہود مخالف پر تشدد کاروائیوں کیلئے استعمال ہوتی ہے۔
کرسٹل ناخٹ کو ٹوٹے ہوئے شیشوں کے ڈھیر کے حوالے اس لئے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ اُس رات سناگاگ یعنی یہودی عبادت گاہوں ،گھروں اور یہودیوں کے کاروباری مراکز پر حملوں اور تباہی کے نتیجے میں جرمنی کی سڑکوں پر ہر جگہ شیشے بکھرگئے تھے۔
کرسٹل ناخٹ کو بنیادی طور پر نازی پارٹی کے اہلکاروں، ایس اے Sturmabteilungen جس کے لفظی معنی ہیں حملہ آور دستے لیکن عرف عام میں انہیں طوفانی فوج سے موسوم کیا جاتا تھا) اور ہٹلر نواز نوجوانوں کی تنظیم ہٹلر یوتھ نے ہوا دی۔ مختلف حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رات کی جانے والی پر تشدد کارروائیوں کو ریاستی سطح پر تقویت دی گئی تھی۔
کرسٹل ناخٹ کے اسباب و محرکات
بعدازاں جرمن حکام نےکرسٹل ناخٹ کے اسباب بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ عوامی جذبات تھے جو پیرس میں جرمن سفارت کار،ارنسٹ فوم راتھ کے قتل بعد بھڑکے۔ واضح رہے کہ راتھ کو ایک سترہ سالہ یہودی نے سات نومبر سن انیس سو اڑتیس گولی مار کر زخمی کیا اور وہ نو نومبر کر ہلاک ہوئے۔ اور پھر نو اور دس نومبر کی درمیانی رات کرسٹل ناخٹ کا واقع پیش آیا۔
اسی رات تمام تر جرمنی اور آسٹریا میں یہودیوں کی سینکڑوں عبادت گاہوں کو نذر آتش کیا جاتا رہا۔ امریکہ میں واقع یونائیٹد اسٹیٹس ہالو کوسٹ میموریل میوزیم کے انسایکلوپیڈیا کے مطابق اور کئی دیگر تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رات آگ بھجانے والے عملےکو ہدایت تھی کہ وہ صرف اسی صورت میں مداخلت کریں جب آگ یہودیوں کی املاک سے نکل کر دیگر علاقوں میں پھیلنے کا خطرہ ہو۔
ایک اندازے کے مطابق صرف ایک رات میں یہودیوں کے زیر ملکیت کم ازکم ساڑھے سات ہزار کاروباری مراکز کو نقصان پہنچایا گیا اور ان کا سامان لوٹ لیا گیا۔ اس دوران یہودی قبرستانوں کی بھی بے حرمتی کی گئی۔اگرچہ اس رات کسی یہودی کو ہلاک کرنا مقصد نہیں تھا تاہم پھر بھی اس رات اکیانوے یہودی ہلاک ہوئے اور اس واقعہ کے بعد بڑے پیمانے پر عورتوں کی آبروریزی کی گئی اور یہودیوں نے خود کشیاں کیں۔
کرسٹل ناخٹ میں کی جانے والی بھیانک کارروائیوں کا مقصد یہودیوں کو اقتصادی اور سماجی طور پر اکیلا کرنا تھا اور انہیں اس بات پر مجبور کرنا تھا کہ وہ جرمن علاقوں کو خیر باد کہہ دیں۔ اسی لئے اس رات کے بعد ہونے والی دیگر کارروائیوں میں تقریبا تیس ہزار یہودیوں کو قیدی بنا لیا گیا جنمیں میں کئی ہلاک ہوئے اور باقی یہودی جرمن علاقوں کو چھوڑ کر چلے جانے کے وعدے کے بعد آزاد کئے گئے۔
یورپ میں یہود آباد کاری
نازی رہنما ہٹلر کے دوراقتدارمیں آنے کے وقت سن انیس سو تینتیس میں مرکزی یورپ میں سب سے زیادہ یہودی جرمن علاقوں میں آباد تھے۔ اس کے علاوہ یہودیوں کی ایک بڑی آبادی مشرقی یورپی ممالک میں سکونت پذیر تھی۔ ہولو کوسٹ یا یہودیوں کے قتل عام سے پہلے اس وقت یورپی ممالک میں یہودیوں کی کل آبادی نو اعشاریہ پانچ ملین تھی۔ جوہولو کوسٹ اور دوسری جنگ عظیم کے بعد تین اعشاریہ پانچ ملین رہ گئی تھی۔ سن انیس سو انتالیس میں جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا اور اس طرح دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا اور تقریبا چھ سالوں کے دوران ہولو کوسٹ میں ساٹھ ملین یہودیوں کو ہلاک کیا گیا۔ اس دوارن یورپ میں بسنے والے دیگر نسلی قبیلوں سمیت روما نسل کے لوگ بھی بے دردی کےساتھ ہلاک کئے گئے۔ اس المناک واقعہ سے قبل جرمنی میں یہودی کی تہذیب و ثقافت قابل دیدنی تھی اوروہ اقتصادی حوالے سے بھی بہت زیادہ طاقت ور تھے۔
تاہم دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی بحالی اور تعمیر نو کے بعد جرمنی سمیت یورپ بھر ہولو کوسٹ پر شرم شار ہے۔ اور جرمنی میں وسیع پیمانے پر نازی ازم اور ہٹلر کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ہولو کوسٹ پر مسلمانوں کا عمومی تاثر
تاہم پاکستان میں اور دنیا بھر کے مسلمان کیا نازی ازم اور ہٹلر کو پسند کرتےہیں ؟ اس کے جواب میں معروف سکالر اور گورنمنٹ کالج لاہور یونیورسٹی لاہور کے شعبہ فلسفہ کے سربراہ مرزا اطہر بیگ نے اپنے خیا لات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عمومی طور پر تو ایسا نہیں ہے تاہم انہوں نے کہا کہ شائد جدید تاریخ اور فلسطینی علاقوں میں ہونے والی سیاسی کشمکش کے نتیجے میں کچھ مسلمان ایسا سوچ رہے ہوں ۔ مرزا اطہر بیگ نے ہولو لوسٹ کو ایک انسانی المیہ قرار دیا اور کہا کہ جو بھی تھوڑا بہت تاریخ سے واقفیت رکھتا ہے وہ کبھی بھی اس المناک واقعہ کو بھول نہیں سکتا۔
مرزا اطہر بیگ نے ریڈیو ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ہٹلر کو ایک سائیکو پیتھ قرار دیا، انہوں نے کہا کہ نسلی بنیادوں میں خون کی ہولی کھیلنے والا ہٹلر دراصل اپنے اعمال کو درست سمجھتا تھا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ہولو کوسٹ نے مغربی دنیا پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں جو نہ صرف ادبی بلکہ روز مرہ کی زندگی کے حوالے سے بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔
بہرحال مرزا اطہر بیگ نے کہا کم از کم پاکستان میں بسنے والے لوگوں کے بارے میں یہ سوچناکہ وہ ہٹلر کو پسند کرتے ہیں مناسب نہیں ہو گا۔