1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین: افغانستان سے متعلق ملاقاتیں، پاکستان بھی شریک

30 مارچ 2022

چین میں افغانستان کے موضوع پر ٹرائیکا پلس اجلاس منقعد کیا جا رہا ہے، جس میں پاکستان، چین، روس، امریکہ اور طالبان قیادت شرکت کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/49DOK
گزشتہ ہفتے چینی وزیر خارجہ نے کابل میں طالبنان قیادت سے ملاقات کی تھیتصویر: Taliban Foreign Ministry/AFP

اس اجلاس میں افغانستان کی موجودہ سیاسی اور اقتصادی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف بھی یوکرین پر روسی حملے کے بعد اپنے پہلے سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے ہیں۔

یوکرین تنازعہ کے پس منظر میں ملاقاتیں

‍لاوروف چینی صوبے اُن ہُوئی کے دارالحکومت تنژی میں افغانستان سے متعلق دو روزہ بات چیت میں شرکت کر رہے ہیں۔ اس ملاقات میں امریکہ، طالبان حکومت، چین اور پاکستان کے حکام بھی شامل ہوں گے۔

اس دورے کے دوران لاوروف اپنی چینی ہم منصب وانگ یی سے بھی ملاقات کریں گے۔

یوکرین پر روسی حملے کے بعد چین نے روس کی حمایت کی ہے اور روسی حملے کی مذمت کرنے سے انکار کیا ہے۔ چین کے مطابق امریکہ اور اس کا نیٹو اتحاد تنازعے کی اصل وجہ ہیں۔ یہ تناؤ اس ٹرائیکا ملاقات پر حاوی نظر آ رہا ہے، جس میں میزبان چین نے روس کے علاوہ پاکستان اور امریکہ کو بھی مدعو کیا ہے۔

افغانستان میں چینی عزائم

چین ٹرائیکا ملاقات کے علاوہ افغانستان کے پڑوسی ممالک کے نمائندوں کی ایک ملاقات کی بھی میزبانی کر رہا ہے۔ پاکستان سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق اس گروپ کا مقصد طالبان قیادت کو ایک کثیرالقومی حکومت کے قیام، اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکنے، انسانی حقوق، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے احترام کرنے پر قائل کرنا ہے۔

چین نے ابھی تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا لیکن امریکہ کی طرح چین نے طالبان پر کڑی تنقید نہیں کی ہے۔ چین افغانستان کے استحکام اور ترقی میں مرکزی کردار ادا کرنے  کی خواہش رکھتا ہے۔

افغانستان: خون جما دینے والی سردی میں شدید ہوتا انسانی بحران

چین کے طالبان قیادت سے مطالبات

چین طالبان سے یہ یقین دہانی بھی چاہتے ہیں کہ وہ اپنی سرحدوں کے اندر چین کی مسلم ایغور اقلیت کے ارکان کو کسی بھی طرح کی سرگرمی کی اجازت نہیں دے گا کیونکہ بیجنگ کو شک ہے کہ ایغور سنکیانگ میں چینی حکومت کا تختہ الٹنے کو کوشش کر سکتے ہیں۔

چینی وزیر خارجہ نے طالبان سے ملاقات کے لیے گزشتہ ہفتے کابل کا دورہ کیا تھا حالانکہ دنیا بھر کی جانب سے طالبات کے ہائی اسکول کھلنے کے چند گھنٹوں بعد انہیں بند کر دینے کے طالبان کے اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ چین نے عوامی سطح پر لڑکیوں کے اسکولوں اور دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے طالبان پر تنقید نہیں کی ہے۔

ایشیائی امور کے تجزیہ کار ہنری اسٹوری کا کہنا ہے کہ وانگ یی کا دورہ کابل  اس بات کو تقویت دیتا ہے،''بیجنگ اس طرح کی کانفرنسوں کی میزبانی کے ذریعے طالبان کو چین اور دیگر پڑوسیوں سے سفارتی شناخت ملنے کے امکانات بڑھا سکتا ہے۔''

چین کی ایک اور فکر افغانستان کے وسیع ذخائر سے فائدہ اٹھانے کے مواقع کی تلاش ہے۔ خاص طور پر 'مس عینک' کان جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تانبے کے ذخیرے کی دنیا کی سب سے بڑی کان ہے۔

کولمبیا یونیورسٹی کے سیاسیات کے ماہر الیگزینڈر کولی کے مطابق، ''ان ملاقاتوں میں چین اپنے آپ کو افغانستان میں انسانی امداد اور اقتصادیات کے سرکردہ چیمپیئن کے طور پر پیش کرے گا۔ اور افغان حکومت کے اثاثوں اور اکاؤنٹس کو غیر منجمد کرنے کا مطالبہ کرے گا۔‍''

ب ج، ع ا (ڈی پی اے)