1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

120511 CO2 Speicherung Debatte

17 مئی 2011

CCS یا کاربن ڈائی آکسائیڈ کیپچر اینڈ سٹوریج ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے، جس میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں سے خارج شُدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں نہیں چھوڑی جاتی بلکہ الگ کر کے زمین میں بہت گہرائی میں دفن کر دی جاتی ہے۔

https://p.dw.com/p/11Hf8
تصویر: Vattenfall

یہ ٹیکنالوجی، جو ابھی بہت ہی ابتدائی مرحلے میں ہے، آگے چل کر کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو بہت زیادہ ماحول دوست بنا سکتی ہے۔ جرمن حکومت اِس ٹیکنالوجی کی آزمائش کو ممکن بنانا چاہتی ہے تاہم جرمن شہری اِس ٹیکنالوجی کو ممکنہ طور پر خطرناک سمجھتے ہوئے اِس سے خوفزدہ ہیں۔ حال ہی میں جرمن علاقے مشرقی برانڈن برگ کے شہریوں نے اپنے ایک احتجاجی مظاہرے میں ایسے بینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر لکھا تھا کہ وہ خود کو تجربات کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیں گے۔

اِس ٹیکنالوجی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو مائع شکل دی جاتی ہے اور پھر زور کے ساتھ دبا کر زمین کی گہرائیوں میں موجود اُن کھوکھلی جگہوں میں دھکیل دیا جاتا ہے، جو معدنی تیل یا گیس وغیرہ نکال لیےجانے سے پیدا ہوتی ہیں۔ تاہم عام لوگوں کو ڈر ہے کہ یہ گیس زیرِ زمین پانی کے ذخائر کو زہر آلود کر سکتی ہے یا پھر زمین سے باہر نکل کر انسانی جانوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

جرمن ادارے Vattenfall کا وہ بجلی گھر، جہاں آزمائشی بنیادوں پر اِس ٹیکنالوجی پر کام ہو رہا ہے
جرمن ادارے Vattenfall کا وہ بجلی گھر، جہاں آزمائشی بنیادوں پر اِس ٹیکنالوجی پر کام ہو رہا ہےتصویر: Vattenfall

جس جرمن علاقے میں توانائی فراہم کرنے والا ادارہ Vattenfall ایک CCS بجلی گھر تعمیر کرنا چاہتا ہے، وہاں کے رکنِ پارلیمان ہنس گیورگ فان ڈیئر ماروِٹس کہتے ہیں:’’اِس سلسلے میں سب سے زیادہ اہمیت تو عام شہریوں کی ہے، جو یہ واضح کر رہے ہیں کہ اِس طرح کی پُر خطر ٹیکنالوجی ہمارے کسی اچھے مستقبل کی ضمانت نہیں ہو سکتی اور نہ ہی ہونی چاہیے۔‘‘

تاہم صنعتی اداروں کو مشاورت فراہم کرنے والے ممتاز ادارے بوسٹن کنسلٹنگ گروپ کا دعویٰ ہے کہ اگر دُنیا کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ آلودگی کا باعث بننے والے ایک ہزار بجلی گھروں کو اسی پُر خطر قرار دی جانے والی ٹیکنالوجی سے آراستہ کر دیا جائے توکاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں ایک تہائی کمی کی جا سکتی ہے۔ تاہم اِس ٹیکنالوجی کے ناقدین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اِس نئی CCS ٹیکنالوجی کی وجہ سے دُنیا بھر میں توانائی کے قابل تجدید ذرائع اپنانے کا عمل تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔

اِس ٹیکنالوجی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو مائع شکل دی جاتی ہے اور پھر زور کے ساتھ دبا کر زمین کی گہرائیوں میں موجود اُن کھوکھلی جگہوں میں دھکیل دیا جاتا ہے، جو معدنی تیل یا گیس وغیرہ نکال لیےجانے سے پیدا ہوتی ہیں
اِس ٹیکنالوجی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو مائع شکل دی جاتی ہے اور پھر زور کے ساتھ دبا کر زمین کی گہرائیوں میں موجود اُن کھوکھلی جگہوں میں دھکیل دیا جاتا ہے، جو معدنی تیل یا گیس وغیرہ نکال لیےجانے سے پیدا ہوتی ہیں

جرمن پارلیمان میں گرین پارٹی کے توانائی سے متعلقہ امور کے ماہر اولیور کِرشنر کہتے ہیں:’’یہ جدید ترین لیکن پُر خطر ٹیکنالوجی ابھی مستقبل کے ایک پُر کشش وعدے سے زیادہ کچھ نہیں اور میرا خیال ہے کہ چین اور بھارت جیسے ممالک کو بھی اِس وعدے پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ بہتر یہی ہے کہ ابھی سے قابلِ تجدید اور پائیدار توانائیوں کا راستہ اختیار کیا جائے۔‘‘

یورپی یونین اِس ٹیکنالوجی پر تحقیق کے لیے اربوں یورو صرف کر رہی ہے۔ جرمن کابینہ نے حال ہی میں زمین میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ذخیرہ کرنے کی ٹیکنالوجی کو آزمائشی بنیادوں پر عملی شکل دینے کی منظوری دے دی ہے۔ تاہم شہریوں میں اِس ٹیکنالوجی کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات کے باعث ابھی بھی یہ بات غیر واضح ہے کہ آیا اِس ٹیکنالوجی کو جرمنی میں عملی شکل دی جا سکے گی۔

رپورٹ: بیرنڈ گریسلر / امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں