1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قطر 2022: انسانی حقوق کی صورت حال اب بھی پریشان کن

Sanjiv Burman30 مارچ 2022

فٹ بال ورلڈ کپ قطر 2022 میں اب برسوں نہیں صرف مہینے باقی ہیں، لیکن کئی سالوں کے بین الاقوامی دباؤ کے باوجود اس امارت میں انسانی حقوق کی صورت حال آج بھی تشویش کا باعث ہے۔

https://p.dw.com/p/49ESf
تصویر: Markus Gilliar/GES/picture alliance

سن 2013 میں انٹرنیشنل بلڈنگ اینڈ وُڈ ورکرز یونین کے نائب صدر دیٹمار شیفرز نے قطر میں فٹ بال ورلڈ کپ کے انعقاد کو انسانی حقوق سے جوڑ دینے کی ایک مہم کا آغاز کیا تھا۔ حالیہ چند برسوں سے شیفرز فٹ بال کی آرگنائزنگ کمیٹی اور قطر کی وزارت محنت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ وہ تعمیراتی منصوبوں کے مقامات کا دورہ بھی کرتے ہیں۔ شیفرز نے قطر میں انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سن 2016 سے وہاں مزدوروں کے حالات میں بہتری آئی ہے۔ مثال کے طور پر مزدروں کے لیے ایئر کنڈیشنڈ کمروں کا انتظام کیا گیا ہے، جہاں وہ گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح انہیں کولنگ جیکٹس بھی فراہم کی گئی ہیں اور اب مزدور کام کے اوقات کے دوران وقفے بھی کر سکتے ہیں۔‘‘

شیفرز کا کہنا ہے کہ قطر میں غیر ملکی کارکنوں کی کفالت کے نظام پر بھی خاصی نظر رکھی گئی تھی، جس پر اب قانونی طور پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس کفالت کے ذریعے قطری کمپنیاں غیر ملکی مزدوروں کے پاسپورٹ ضبط کر لیتی تھیں۔ شیفرز کے مطابق، ''کفالت کا قانون اب ختم کر دیا گیا ہے۔ اب کارکن آزادی سے کہیں بھی جا سکتے ہیں اور کسی دوسری کمپنی میں ملازمت بھی تلاش کر سکتے ہیں۔ قطر میں اب کم از کم اجرت بھی طے کر دی گئی ہے۔‘‘

شیفرز کہتے ہیں کہ تعمیراتی منصوبوں پر کام کرنے والے مزدور اب اپنے نمائندے بھی چن سکتے ہیں اور ایک ایسا بورڈ بھی تشکیل دے دیا گیا ہے، جہاں مزدور اپنی شکایات لے کر جا سکتے ہیں۔

تبدیلیاں مثبت لیکن عمل درآمد کی کمی

ڈیٹمار شیفرز کہتے ہیں کہ یہ نئی تبدیلیاں مثبت تو ہیں لیکن ابھی تک ان پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہو پا رہا اور پورے 'قطر میں نو لاکھ ورکرز کے لیے صرف دو سو انسپکٹر ہیں‘۔  شیفرز کہتے ہیں قطری حکومت نے ان نئے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی کمپنیوں کو سخت سزائیں سنانے کے حوالے سے کوئی بھی متاثر کن کام نہیں کیا۔ ان کے بقول تعمیراتی شعبے کی جو کمپنیاں ان قوانین پر پورا عمل در آمد نہیں کرتیں، ان پر صرف جرمانے عائد کرنا ہی کافی نہیں بلکہ ان کے سربراہان کو جیل بھیجا جانا چاہیے تا کہ ایسی کمپنیاں بند ہی یو جائیں۔

کاٹیا میولر فاہلبُش ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مشرق وسطیٰ کے امور کی ماہر ہیں۔ وہ قطر میں تعمیراتی شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں کے حالات پر مطمئن نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''قطر میں اب بھی قدامت پسند قوتیں ہیں، جو جدیدیت کے خلاف ہیں۔ وہ کوئی سماجی تبدیلیاں نہیں چاہتیں۔ فٹ بال ورلڈ کپ کے بعد بھی قطر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر طویل عرصے تک نظر رکھی جانا چاہیے۔‘‘

کاٹیا میولر فاہلبُش کہتی ہیں کہ اگر ایسا نہ کیا گیا، تو وہاں کام کرنے والے ہزاروں تارکین وطن مستقبل میں بھی ہراساں کیے جاتے رہیں گے اور زیادتیوں کا شکار بنتے رہیں گے۔

ب ج / م م (اولاف جانسن)

قطر: گھریلو ملازماؤں کی دلخراش داستانیں

قطر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی آگاہی کا انوکھا انداز