1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اناج کی برآمدات کے حوالے سے روس قابل بھروسہ نہیں، زیلنسکی

24 جولائی 2022

یوکرینی صدر نے کہا ہے کہ اوڈیسا کی بندرگاہ پر میزائل حملے روس کی بربریت کا اظہار ہیں۔ زیلنسکی کے مطابق اناج کی برآمدات کی بحالی کے معاہدے کے حوالے سے ماسکو پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

https://p.dw.com/p/4EZPM
تصویر: Nina Liashonok/Ukrinform/IMAGO

گزشتہ روز یہ حملے یوکرین اور روس کے مابین یوکرینی اناج کی برآمدات کے محفوظ راستے کو یقینی بنانے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے جانے کے چند گھنٹے بعد کیے گئے تھے۔

روسی موقف

ماسکو کے مطابق روس اور یوکرین کے درمیان اناج کی ترسیل دوبارہ شروع کرنے کے معاہدے پر دستخط کرنے کے ایک دن سے بھی کم وقت کے بعد اوڈیسا کی بندرگاہ پر فضائی حملے میں صرف فوجی اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ روسی وزارت خارجہ کے ترجمان ایگور کوناشینکوف کا کہنا ہے کہ اوڈیسا شہر کی بندرگاہ میں، ایک شپ یارڈ پر، طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں نے، یوکرین کے ایک جنگی جہاز اور ہارپون اینٹی شپ میزائلوں کے ایک گودام کو تباہ کیا۔ یہ ہارپون اینٹی شپ میزائل امریکہ کی طرف سے کییف حکومت کو فراہم کیے گئے تھے۔

عالمی سطح پر ان حملوں کی مذمت

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے جنہوں نے یوکرین اور روس کے درمیان اناج کی درآمدات کی بحالی سے متعلق ڈیل میں اہم کردار ادا کیا، ان حملوں کی مذمت کی ہے۔ گوٹیرش کے مطابق عالمی سطح پر خوارک کے بحران کو فوری ختم کرنے کے لیے دنیا کو یوکرین اور روس کے اناج کی سپلائی کی اشد ضرورت ہے۔ یورپی یونین اور امریکہ سمیت کئی ممالک نے بھی اوڈیسا کی بندرگاہ پر روسی حملوں کی مذمت کی ہے۔

یوکرین اور روس گندم کے بڑے برآمد کنندگان ہیں۔ روس کے بحیرہ اسود کے بحری بیڑے کی طرف سے یوکرینی بندرگاہوں کی ناکہ بندی کے بعد سے یوکرین میں لاکھوں ٹن اناج پھنس جانے سے عالمی سپلائی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ یوکرین کے سرکاری نیوز چینل نے یوکرین کی فوج کے حوالے سے بتایا ہے کہ روسی میزائلوں نے بندرگاہ کے اناج کے ذخیرہ کرنے والے علاقے کو نشانہ نہیں بنایا اور نہ ہی اناج کو کوئی خاص نقصان پہنچا ہے۔ کییف نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ اناج کی ترسیل دوبارہ شروع کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ یوکرین کے انفراسٹرکچر کے وزیر اولیکسینڈر کبرکوف نے ایک فیس بک پوسٹ میں کہا، ''ہم اپنی بندرگاہوں سے زرعی اجناس کی برآمدات کے آغاز کے لیے تکنیکی تیاریاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

ہمیں کوئی بلیک میل نہیں کر سکتا، جرمن وزیر خارجہ

مغربی پابندیوں کے سبب روس کی افریقہ میں روابط مضبوط کرنے کی کوشش

روس کے وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف آج اتوار 24 جولائی کو مصری حکام کے ساتھ بات چیت کے لیے قاہرہ پہنچے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ یوکرین پر حملے کے بعد مغرب کی طرف سے سفارتی تنہائی اور پابندیوں کے تناظر میں دیگر ممالک کے ساتھ روابط بڑھائے جائیں۔ روس کے سرکاری نیوز چینل آر ٹی کے مطابق لاوروف مصر کے علاوہ ایتھوپیا، یوگنڈا اور ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو کا بھی دورہ کریں گے۔ روسی وزیر خارجہ اپنے دورے کے دوران عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابو الغیط سے بھی ملاقات کریں گے۔

روسی وزیر خارجہ کا یہ دورہ امریکی صدر جو بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے دورے کے دو ہفتے سے بھی کم عرصے بعد کیا جا رہا ہے۔ عرب دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک مصر نے فروری میں یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے کسی کا فریق بننے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ اس کے ماسکو اور مغرب دونوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔

مصر دنیا میں گندم کے سب سے بڑے درآمد کنندگان میں سے ایک ہے، جس کا زیادہ تر حصہ روس اور یوکرین سے آتا ہے۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ قریبی ذاتی تعلقات ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے گزشتہ چند سالوں میں دوطرفہ تعلقات کو کافی مضبوط کیا ہے۔ لاوروف کا قاہرہ کا دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب روس کی سرکاری جوہری توانائی کارپوریشن، روزاٹوم نے گزشتہ ہفتے مصر میں چار ری ایکٹر پر مشتمل پاور پلانٹ کی تعمیر شروع کی تھی۔

ب ج/ ا ب ا (روئٹرز، اے ایف پی)

یوکرینی کسانوں کا مقابلہ بندرگاہوں کی ناکہ بندی سے