آؤشوِٹس کیمپ کی آزادی کی 70 ویں سالگرہ
27 جنوری 201527 جنوری کو آؤشوِٹس اذیتی کیمپ کی آزادی کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر کئی ممالک میں یادگاری تقاریب منعقد کی جا رہی ہیں جن میں نازیوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے افراد کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔ اسی سلسلے میں پولینڈ میں واقع آؤشوٹس کیمپ میں بھی ایک یادگاری تقریب منعقد ہو گی۔ اس تقریب میں بیلجیئم اور ہالینڈ کے شاہی خاندان کے افراد کے علاوہ فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ، جرمن صدر یوآخم گاؤک اور یوکرائن کے صدر پیٹرو پوروشینکو کی شرکت بھی متوقع ہے۔ اس تقریب میں اس کیمپ سے رہا کروائے جانے والے 300 سابق قیدی بھی شرکت کریں گے۔
آؤشوِٹس کیمپ، 11 لاکھ افراد کا قتل
دوسری عالمی جنگ کے دوران پولینڈ پر جرمنی کے قبضے کے دوران جرمن نازی سوشلسٹ حکمرانوں کے ایماء پر Auschwitz کے اس اذیتی کیمپ میں 1.1 ملین افراد کو ہلاک کر دیا گیا تھا، جن میں سے زیادہ تر یہودی تھے۔
نازی جرمنی میں ہٹلر کی فوج کی طرف سے اس کیمپ میں پولستانی باشندوں، روما نسل کے خانہ بدوشوں اور سوویت یونین سے تعلق رکھنے والے جنگی قیدیوں کے علاوہ کئی دوسرے ملکوں کے شہریوں کو بھی قید میں رکھا گیا تھا۔ اس کیمپ کو 27 جنوری سن 1945 کو سابق سوویت یونین کی فوج نے جسے ریڈ آرمی کہا جاتا تھا، آزاد کرایا تھا۔ آؤشوٹس کا اذیتی کیمپ نازی دور کے حراستی کیمپوں میں سے سب سے زیادہ بدنام تھا۔
جرمنی میں خصوصی تقریبات اور پارلیمان کا اجلاس
آؤشوِٹس کیمپ کی آزادی کے 70 برس مکمل ہونے پر جرمنی میں بھی خصوصی یادگاری تقاریب کا انعقاد ہو رہا ہے۔ پیر 26 جنوری کو برلن میں ہونے والی ایک یادگاری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس بات کو شرمناک قرار دیا کہ جرمنی میں یہودیوں کو بے عزتی، دھمکیوں اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تقریب میں بھی آؤشوِٹس کے اذیتی کیمپ سے زندہ بچ نکلنے والے افراد نے شرکت کی۔
ستائیس جنوری کو آؤشوِٹس کیمپ کی آزادی کے حوالے سے وفاقی جرمن پارلیمان کا بھی ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا گیا۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جرمن صدر یوآخم گاؤک کا کہنا تھا کہ آؤشوِٹس جرمنی کی شناخت کا حصہ ہے:’’آؤشوِٹس کے بغیر جرمن شناخت مکمل نہیں ہوتی۔ یہ اس ملک کی تاریخ سے تعلق رکھتا ہے۔‘‘
وفاقی جرمن پارلیمان کے اس خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پارلیمان کے اسپیکر نوربرٹ لامرٹ نے جرمن شہریوں پر زور دیا کہ وہ نازی جرمنی کی طرف سے کیے جانے والے جرائم کی یاد کو زندہ رکھیں۔