آئن اسٹائن کی تھیوری پرکھنے کی تیاری
31 دسمبر 2014اس کلاک کی تیاری کے بعد اس کے ذریعے خلا سے ایک ایسے عمل کو جانچنے کی کوشش کی جائے گی جس کا ذکر آئن اسٹائن کی ایک نظریے، جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی یا ’نظریہ اضافت‘ میں کیا گیا ہے۔
یہ سسٹم جسے ’سپر کلاک‘ قرار دیا جا رہا ہے، دراصل دو اٹامک کلاکس یا جوہری گھڑیوں پر مشتمل ہو گا جن کا لیزر اور مائیکروویو کے ذریعے زمین سے رابطہ ہو گا۔ یورپیئن اسپیس ایجنسی کے لیے تیار کیے جانے والے اس سپر کلاک کو ACES کا نام دیا گیا ہے یعنی ’اٹامک کلاک اینسمبل اِن اسپیس‘۔
ایئربس گروپ کے ڈویژن ’ایئربس ڈیفنس اینڈ اسپیس‘ کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ اس نظام کو 2017ء میں خلا میں پہنچایا جائے گا اور اسے زمین کے مدار میں گردش کرتے انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن سے منسلک ’یورپیئن کولمبس ماڈیول‘ سے جوڑا جائے گا۔
ACES کس حد تک وقت کی درست پیمائش کرے گا یہ اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس سے ریکارڈ کیے جانے والے وقت میں 300 ملین سالوں کے بعد محض ایک سیکنڈ کا فرق پیدا ہونے کا امکان ہے۔
جرمنی میں پیدا ہونے والے بیسویں صدی کے معروف ترین ماہر طبیعات البرٹ آئن اسٹائن نے 1921ء میں فزکس کا نوبل انعام بھی حاصل کیا تھا۔ یہ آئن سٹائن ہی تھے جنہوں نے 1905ء میں ایٹم کے وجود کو ثابت کیا۔ یہ دریافت اگے چل کر کوانٹم تھیوری کی وجہ بنی جو فزکس کی ترقی میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔
آئن اسٹائن کی طرف سے پیش کیے گئے نظریہ اضافت یا تھیوری آف ریلیٹیویٹی کے مطابق وقت کے گزرنے کی رفتار کا انحصار کشش ثقل پر ہوتا ہے۔ اس تھیوری کے مطابق جیسے جیسے آپ زمین جیسے کسی بڑے سیارے کے قریب پہنچتے ہیں وقت کے گزرنے کی رفتار کم ہوتی جاتی ہے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق خلا میں پہنچائے جانے کے بعد سائنسدان آٹھ ماہ کے عرصے کے دوران ACES کے ذریعے ریکارڈ کیے گئے وقت کا موازنہ زمین پر موجود ایٹمی کلاک کے ساتھ کریں گے جس کے بعد آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت کے بارے میں کوئی حتمی بات سامنے آ سکے گی۔