’آئی ایس‘ کے موضوع پر یورپی یونین کا ہنگامی اجلاس
14 اگست 2014برسلز میں ایک یورپی سفارت کار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ یورپی یونین کے اجلاس میں غور کیا جائے گا کہ کس طرح سے اسلامک اسٹیٹ کو تیل فروخت کرنے سے روکا جاسکتا ہے۔ اس شدت پسند تنظیم نے شام اورعراق میں تیل کی چند تنصیبات پر قبضہ کیا ہوا ہے اور انہوں نے اپنی خود ساختہ خلافت کو چلانے کے لیے غیر قانونی طریقے سے تیل اور گیس کی فروخت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ یورپی وزرائے خارجہ کا یہ اجلاس جمعے کو ہو رہا ہے۔ اس دوران عراق میں انسانی بحران کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
یورپی یونین نے2011ء میں صدر بشارالاسد پر دباؤ بڑھانے کے لیے شام سے تیل خریدنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ تاہم اپریل 2013ء میں ان پابندیوں میں کچھ نرمی کرتے ہوئے شام کی اعتدال پسند حزب اختلاف سے خام تیل خریدنے کا سلسلہ دوبارہ سے شروع کر دیا گیا۔ یورپی ماہرین غور کر رہے ہیں کہ یورپی پابندیوں کو اگر دوبارہ سے سخت کر دیا جائے تو اس طرح اسلامک اسٹیٹ کے شدت پسندوں کو شامی تیل فروخت کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایک سفارت کار نے شناخت خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا، ’’ ہم اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کس طرح اس پر عمل کیا جا سکتا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یورپی یونین کے ارکان خاص طور پر فرانس اور موجودہ سربراہ ملک اٹلی کے شدید مطالبے کے بعد یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران کیتھرین ایشٹن نے وزائے خارجہ کا یہ ہنگامی اجلاس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ مزید یہ کہ اس اجلاس میں اسلامک اسٹیٹ کے علاوہ یوکرائن، لیبیا اور غزہ میں جاری بحرانوں پر بھی بات چیت کی جائے گی۔
اس تناظر میں اٹلی کی وزیر خارجہ فیدریکا موہیرینی نے کہا کہ یہ اجلاس ایک ایسے اختتامی اعلامیے تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے، جس میں صرف ان بحرانوں پر اصولی موقف اختیار کرنے کی بات کی جائے بلکہ ان بحرانوں کے حل کے لیے موثر اقدمات اور طریقہ کار کے بارے میں فیصلہ کیا جانا چاہیے۔اس دوران وزراء اس امر بھی غور کریں گے کہ شدت پسندوں کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے کرد صدر مسعود برزانی کی تعاون کی اپیل پر کس حد تک عمل کیا جا سکتا ہے۔
یورپی یونین کے چند ارکان نے عراقی کردوں کو اسلحہ مہیا کرنے کی حامی بھر لی ہے تاہم یورپی یونین اس تناظر میں ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا چاہتی ہے۔