آئینی ریفرنڈم: ایردوآن کا فتح کا اعلان، اپوزیشن کا احتجاج
17 اپریل 2017اس ریفرنڈم میں صدر ایردوآن کی کامیابی کا مطلب یہ ہے کہ اب جدید ترکی کے سیاسی ڈھانچے میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں عمل میں لائی جائیں گی اور صدر ایردوآن کو وسیع تر اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔
اس ریفرنڈم کے لیے چلنے والی مہم کے بعد بظاہر یہی نظر آ رہا تھا کہ ترکی کے کُرد اکثریت کے حامل جنوب مشرقی علاقے اور خاص طور پر تین بڑے ترک شہر، جن میں دارالحکومت انقرہ اور سب سے بڑا شہر استنبول بھی شامل ہے، مخالفت میں ووٹ دیتے ہوئے مجوزہ آئینی ترامیم کو رَد کر دیں گے۔
ایردوآن نے کہا کہ پچیس ملین ترکوں نے اُن کی اُس تجویز کی حمایت کی ہے، جس کے تحت ترکی کے پارلیمانی نظام کی جگہ ایک ایسا صدارتی نظام رائج ہو جائے گا، جس میں صدر وسیع تر اختیارات کا حامل ہو گا اور وزیر اعظم کا عہدہ ختم کر دیا جائے گا۔ ایردوآن کے مطابق 51.5 فیصد رائے دہندگان نے ’ہاں‘ میں ووٹ دیتے ہوئے اُنہیں اس ریفرنڈم میں کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔
اس طرح ایردوآن اور اُن کی جماعت اے کے پی (جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی) کو وہ فیصلہ کن کامیابی حاصل نہیں ہو سکی، جس کے لیے اُنہوں نے اتنی پُرجوش انتخابی مہم چلائی تھی۔ اس کے باوجود انقرہ اور استنبول میں ایردوآن کے ہزارہا حامی کامیابی کا جشن مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔
ایردوآن نے ترکی میں ماضی میں کئی بار ہونے والی فوجی بغاوتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’جمہوریہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہم جمہوری سیاست کے ذریعے حکومتی نظام کو تبدیل کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ اس قدر اہم بات ہے۔‘‘
ان آئینی ترامیم کے نتیجے میں، جن میں سے زیادہ تر 2019ء کے اگلے انتخابات کے بعد نافذ العمل ہوں گی، وُزراء کی تقرری بھی صدر ہی کے دائرہٴ اختیار میں ہو گی، صدر ہی غیر معینہ تعداد میں نائب صدور مقرر کرے گا اور صدر پارلیمانی منظوری کے بغیر سینیئر بیوروکریٹس کی تقرری کر سکے گا یا اُنہیں سبکدوش بھی کر سکے گا۔
گزشتہ سال جولائی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے ترکی میں ہونے والے کریک ڈاؤن کے دوران سینتالیس ہزار افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے جبکہ ایک لاکھ بیس ہزار کو اُن کے عہدوں سے ہٹایا یا معطل کیا جا چکا ہے۔
انقرہ میں وزیر اعظم بن علی یلدرم نے پُر جوش حامیوں سے خطاب کیا۔ مرکزی شاہراہ پر کاروں کے قافلے ہارن بجاتے ہوئے اے کے پی کے ہیڈ کوارٹرز کی طرف روں دواں تھے جبکہ کاروں کے اندر بیٹھے ہوئے افراد اُن کی کھڑکیوں سے باہر ملکی اور پارٹی پرچم لہرا رہے تھے۔
دوسری طرف اپوزیشن کی مرکزی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) نے اس ریفرنڈم کے جائز انعقاد کے حوالے سے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اس جماعت کے مطابق ایسے ووٹ بھی گنے گئے ہیں، جن پر انتخابی عملے کی جانب سے مہر نہیں لگائی گئی تھی۔ اس جماعت کے رہنما یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اس ریفرنڈم کا مطلب ملک پر ایک شخص کی حکمرانی قائم کرنا ہے اور اس سے ملک کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
استنبول کے کچھ علاقوں میں انتخابی نتائج کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے ہیں جبکہ انقرہ میں بھی اپوزیشن جماعت سی ایچ پی کے ہیڈ کوارٹرز کے قریب حکمران جماعت اے کے پی کے حامیوں اور اپوزیشن ارکان کے درمیان تصادم ہوا ہے۔
اِدھر یورپی یونین کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یورپی یونین کے تین سرکردہ ترین نمائندوں یعنی یورپی کمیشن کے سربراہ ژاں کلوڈ یُنکر، یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیدیریکا موگرینی اور یونین میں توسیع سے متعلقہ امور کے کمشنر یوہانیس ہان نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ وہ اس ریفرنڈم کے حوالے سے بین الاقوامی مبصرین کی رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں، جو آج پیر کے روز جاری کی جائے گی۔
کچھ یورپی رہنما ابھی سے اس بات پر زور دینے لگے ہیں کہ اس ریفرنڈم کے بعد ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے حوالے سے انقرہ حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات ختم کر دیے جانے چاہییں۔