آبادی: بھارت اس سال چین کو پیچھے چھوڑ دے گا
19 اپریل 2023اقوام متحدہ کی جانب سے بدھ کے روز جاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت جلد ہی دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔ اس سال کے وسط تک اس کی آبادی چین کے مقابلے تین ملین سے زیادہ ہو جائے گی۔
اقوام متحدہ کی پاپولیشن فنڈ (یو این پی ایف اے) کی سالانہ "اسٹیٹ آف دی ورلڈ پاپولیشن رپورٹ2023 " کے اعداد وشمار کے مطابق بھارت کی آبادی 1428.6 ملین یعنی ایک ارب بیالیس کروڑ چھیاسی لاکھ ہو جائے گی جب کہ چین کی آبادی 14257ملین ہو گی۔
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گوکہ امریکہ تیسرے نمبر پر ہے لیکن اس کی آبادی بھارت اور چین کے مقابلے کافی کم یعنی لگ بھگ 340 ملین ہو گی۔ یہ اعداد و شمار فروری 2023 تک کی معلومات پر مبنی ہیں۔
آبادی کے امور کے ماہرین نے اقوام متحدہ کے سابق اعداو شمار کا استعمال کرتے ہوئے اندازہ لگایا ہے کہ بھارت اس ماہ چین کو آبادی کے لحاظ سے پیچھے چھوڑ دے گا۔ تاہم عالمی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ یہ تبدیلی کس تاریخ کو آئے گی۔
’سن دو ہزار پچاس تک دنیا کی آبادی دس بلین ہو جائے گی،
یو این پی ایف اے کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بھارت اور چین سے آنے والے اعداد و شمار کے متعلق "غیر یقینی صورت حال" کی وجہ سے کسی حتمی تاریخ کا تعین کرنا ممکن نہیں تھا۔ خاص طور پر چونکہ بھارت کی آخری مردم شماری 2011 میں ہوئی تھی اور اگلی مردم شماری 2021 میں ہونے والی تھی جو کووڈ کی عالمی وبا کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو گئی۔
آبادی میں اضافہ لیکن رفتار سست
گرچہ بھارت اور چین کی مشترکہ آبادی عالمی آبادی 8.045 ارب کا ایک تہائی سے زیادہ ہوگی لیکن ایشیا کے ان دونوں اہم ملکوں میں آبادی میں اضافے کی رفتار سست ہوگئی ہے۔ بھارت کے مقابلے میں چین میں یہ رفتار کہیں زیادہ سست ہے۔
گزشتہ برس چین کی آبادی میں پچھلے چھ دہائیوں میں پہلی بار کمی واقع ہوئی، جو ایک تاریخی موڑ ہے اور جو متوقع طورپرآبادی میں طویل مدت تک کمی کا آغاز ہے۔ چین کی آبادی میں اس کمی سے خود اس کی معیشت اور دنیا پر مضمرات پڑنے کی توقع ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بھارت کی آبادی میں سالانہ اوسطاً 1.2فیصد کا اضافہ ہوا ہے جو کہ ا س سے پہلے کے دس سالوں میں 1.7فیصد تھا۔
.بھارت کی آبادی: ہندو پہلی بار اسّی فیصد سے کم، مسلمان زیادہ
یو این ایف پی اے انڈیا کی نمانئدہ آندریا ووجنار نے ایک بیان میں کہا، "بھارت کے سروے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ آبادی میں اضافے کے حوالے سے بے چینی عام لوگوں کے ایک بڑے حصے میں پھیل چکی ہے۔ تاہم آبادی کی تعداد کے حوالے سے بے چینی یا خطرے کی گھنٹی نہیں پیدا کرنی چاہئے۔ اس کے بجائے اگر انفرادی حقوق اور پسند کو برقرار رکھا جارہا ہو تو انہیں ترقی، پیش رفت اور خواہشات کی علامت کے طورپر دیکھا جانا چاہئے۔"
ج ا/ ص ز (روئٹرز)