آتشزنی میں تین فلسطینی ہلاکتیں، دو یہودیوں پر فرد جرم عائد
3 جنوری 2016اسرائیلی دفتر استغاثہ نے بتایا ہے کہ ایک ملزم کا نام امیرام بین اولیل ہے، جس کی عمر اکیس برس بتائی گئی ہے۔ گزشتہ برس مغربی اردن کے علاقے میں ایک فلسطینی کے گھر کو آگ لگانے میں اس حملہ آور کا ساتھ ایک نابالغ ملزم نے دیا تھا، جس کا نام نہیں بتایا گیا تاہم اسے پر بھی فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ اس کیس کی ابتدائی چھان بین انتہائی احتیاط سے کی گئی اور تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا گیا۔
ناقدین کے مطابق اس تحقیقاتی عمل کی طوالت نے بھی فلسطینیوں اور اسرائیل کے مابین حالیہ تشدد کے واقعات کو ہوا دی۔ یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران مختلف پرتشدد واقعات رونما ہوئے ہیں، جن کے نتیجے میں بیس اسرائیلی جبکہ 140 فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔
امیرام بین اولیل نے جب مغربی اردن کے قصبے دوما میں ایک گھر کو نذر آتش کیا تھا، تو اس وقت وہاں چار افراد موجود تھے۔ ان میں دو بچے اور ان کے والدین شامل تھے۔ اس آتشزنی کی وجہ سے اٹھارہ ماہ کا بچہ احمد دوابشہ فوری طور پر ہلاک ہو گیا تھا۔ بعد ازاں ان بچوں کے ماں ریحام اور والد سعد بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے تھے۔ تاہم ن کے چار سالہ بچے علی کو بچا لیا گیا تھا۔
پولیس نے بتایا ہے کہ ان انتہا پسند یہودیوں نے گزشتہ برس اکتیس جولائی کو رات کی تاریکی میں سعد دوابشہ کے گھر پر ایک ایسے وقت پر پٹرول بم پھینکے تھے، جب اہل خانہ سو رہے تھے۔ اسی دوران ان انتہاپسندوں نے مبینہ طور پر ’بدلہ، بدلہ‘ کے نعرے بھی لگائے تھے۔ اس پرتشدد واقعے کی عالمی سطح پر شدید مذمت کی گئی تھی۔ عالمی برادری نے بھی اسرائیل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس جرم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔
اسرائیلی دفتر استغاثہ کے مطابق امیرام بین اولیل نے یہ حملہ دراصل مقبوضہ یروشلم میں ایک یہودی آبادکار کی ہلاکت کے بعد کیا تھا اور اس کا مقصد اس ہلاکت کا بدلہ لینا تھا۔ اسرائیلی سکیورٹی ایجنسی شین بیت کے مطابق امیرام بین اولیل نے اعتراف جرم کر لیا ہے۔
اس خفیہ ادارے کے مطابق تحقیقاتی عمل کے دوران انتہا پسند یہودیوں کے ایک نیٹ ورک کا پتہ بھی چلا لیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ دو دیگر یہودی انتہا پسندوں کو بھی فلسطینیوں پر حملہ کرنے کے شبے میں حراست میں لے لیا گیا ہے۔