’آج زندگی بچا لی گئی تو کل خود کش حملے ميں ہلاک ہو سکتا ہوں‘
31 مارچ 2018
دھرنے اور بھوک ہڑتال ميں شامل چار افغان شہريوں کو بروز ہفتہ ہسپتال منتقل کر ديا گيا ہے۔ لشکر گاہ ميں درجنوں افراد جن ميں مرد، عورتيں اور بچے بھی شامل ہيں، احتجاج کر رہے ہيں۔ احتجاج اور دھرنے ميں شامل چند افراد نے جمعرات انتيس مارچ سے بھوک ہڑتال شروع کی تھی۔ ہلمند صوبے کے ڈائريکٹر برائے صحت عامہ امين اللہ عابد نے بتايا کہ ان ميں سے دو کی حالت کافی بگڑ چکی تھی۔
يہ افراد لشکر گاہ ميں تيئس مارچ کو ہونے والے کار بم حملے کے ايک دن بعد سے سراپا احتجاج تھے۔ اس حملے ميں تيرہ افراد ہلاک اور درجنوں ديگر زخمی ہو گئے تھے۔ ان مظاہرين کا مطالبہ ہے کہ افغان سکيورٹی فورسز اور طالبان کے مابين جنگ بندی ممکن بنائی جائے۔
ہفتے کو تازہ پيش رفت ميں ہسپتال منتقل کيے جانے والے ستائيس سالہ قيس ہاشمی کا کہنا ہے، ’’اگر يہ ڈاکٹر آج ميری جان بچا بھی ليتے ہيں، تو ممکن ہے کہ کل ميں کسی خود کش حملے ميں مارا جاؤں۔‘‘ بھوک ہڑتال اور دھرنے کے ايک منتظم اقبال خيبر نے بتايا کہ اس وقت اس احتجاج ميں قريب پچاس افراد شريک ہيں۔ ان کے بقول جب تک لوگوں کے مطالبات پورے نہيں کيے جاتے، وہ احتجاج جاری رکھيں گے۔
مظاہرے میں شامل دہشت گردانہ واقعات کے متاثرين اور سول سوسائٹی کے ارکان ايک سو کلوميٹر تک مارچ کر کے طالبان کے علاقوں ميں بھی جانا چاہتے تھے تاکہ انہيں جنگ بندی پر قائل کيا جا سکے تاہم طالبان نے انہيں ايسا کرنے سے روک کر کہا کہ وہ اپنا احتجاج امريکی فوجی اڈوں کی طرف لے جائيں اور ان سے ’جنگ اور قبضے‘ کے خاتمے کا مطالبہ کريں۔
ع س / ع ب، نيوز ايجنسياں