’بریگزٹ، یورپ کے لیے ایک افسوس ناک دن‘
24 جون 2016جمعے کی صبح برلن میں صحافیوں سے بات چیت میں اشٹائن مائر نے کہا کہ لندن سے آنے والی خبریں انتہائی ’سنجیدہ‘ نوعیت کی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ معلوم یہی ہوتا ہے کہ آج کا دن یورپ اور برطانیہ کے لیے ایک افسوس ناک دن بننے جا رہا ہے۔
ادھر یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلوڈ ینکر نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ برطانیہ کو یورپی یونین کا رکن رکھنے کے لیے مزید بہتر مراعات پر بات چیت نہیں ہو گی۔ ینکر نے کہا کہ 28 رکنی یورپی یونین سے اخراج کا مطلب ’اخراج‘ ہے۔ یورپی یونین کی رکنیت بحال رکھنے کے لیے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اور برسلز کے درمیان مذاکرات کے بعد برطانیہ کے لیے ایک خصوصی اصلاحاتی مسودہ منظور کیا گیا تھا، تاہم ینکر کا کہنا ہے کہ اس سے زیادہ یورپی یونین برطانیہ کو مراعات نہیں دے سکتی۔
دریں اثناء برطانوی عوام کی جانب سے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں ووٹ کے بعد پولینڈ کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے پورے نظریے اور خیال پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
ادھر اس ریفرنڈم کے بعد اسکاٹ لینڈ میں ایک مرتبہ پھر برطانیہ سے آزادی اور یورپی یونین کا حصہ رہنے سے متعلق آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ اسکاٹ لینڈ میں عوام کی اکثریت نے برطانیہ کے یورپی یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ اسی تناظر میں برطانوی وزیرخارجہ وِلیم ہیمونڈ نے بھی کہا ہے کہ اس ریفرنڈم کے بعد اسکاٹ لینڈ کے برطانیہ کا حصہ رہنے یا آزاد ہو جانے کے حوالے سے بھی سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔
دوسری جانب یورپ میں انتہائی دائیں بازو کی یورپی یونین مخالف تنظیموں اور جماعتوں کی جانب سے برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج پر خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے، کیوں کہ اس سے دیگر ممالک کے بھی یونین سے اخراج کی راہ ہم وار ہو گئی ہے۔
ہالینڈ کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت کے متنازعہ رہنما گیرٹ وِلڈرز نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ برطانیہ کی طرز پر ہالینڈ میں بھی ریفرنڈم کا انعقاد کیا جانا چاہیے جب کہ یہی مطالبہ فرانس کی انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست جماعت نیشنل فرنٹ کی راہ نما مارین لے پین کی جانب سے بھی سامنے آیا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ برطانوی عوام کے اس فیصلے سے ’آزادی کی جیت‘ ہوئی ہے۔