1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آر اے ایف کےسابقہ دہشت گرد کلار کی رہائی کا فیصلہ، ایک تبصرہ

مائیکل رائسین بیرگر/ افضال حسین26 نومبر 2008

جرمنی میں ریڈ آرمی گروپ نامی کالعدم دہشت گرد تنظیم سےتعلق رکھنے والے سابقہ دہشت گرد کرسٹیان کلار کوایک عدالتی حکم کے مطابق اگلے برس کے اوائل میں رہا کر دیا جائےگا۔

https://p.dw.com/p/G1tL
کرسٹیان کلار کی 1992 میں ایک عدالتی سماعت کے دوران لی گئی تصویرتصویر: picture-alliance/dpa

جنوبی جرمن شہر شٹٹ گارٹ کی ایک اعلیٰ صوبائی عدالت نے اس حوالے سے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس وقت 56 سالہ کرسٹیان کلار کوان کوسنائی گئی سزائے قید کی کم ازکم مدت پوری ہونے کے بعد 2009 کے اوائل میں ضمانت پر رہا کردیا جائے گا۔

ممکنہ طور پرجنوری 2009 کے پہلے ہفتہ کے دوران رہائی پانے والے Christian Klar کا شمار ریڈ آرمی گروپ کی اس دوسری نسل کے سرکردہ رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے1977 میں جرمن خزاں کہلانے والے عرصے کے دوران کئی دہشت گردانہ حملے کئے تھے۔ کرسٹیان کلار کو 1985 میں نو افراد کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

کرسٹیان کلار کی رہائی کے فیصلے پر مائیکل رائسین بیرگرکا لکھا تبصرہ:

گذشتہ برس کے اوائل میں سابق دہشت گرد Christian Klar کی جانب سےرہائی کی اپیل سامنے آنے کے بعد ملک میں تشویش اور بے چینی سے عبارت جس طرح کا جذباتی ردعمل دیکھنے میں آیا تھا، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے جائزہ لیا جائے تو اب Klar کی رہائی پر جرمن معاشرے اور جرمن میڈیا کا ردعمل حقیقت پسندی پرمبنی ہے۔

اگرچہ ریاست باویریا کے وزیر داخلہ نےایک بار پھر پرزور احتجاج کیا، اور جرمن پولیس کی ٹریڈ یونین نے بھی اس فیصلےپر ناپسندیدگی کا اظہار کیا، تاہم کالعدم دہشت گرد تنظیم RAF کے ہاتھوں مرنے والے ایک شخص کی بیٹی نے کرسٹیان کلار کی رہائی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ اس کا غم پھر سے تازہ ہو گیا ہے لیکن وہ عدالتی فیصلے کا احترام کرتی ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ عمر قید اس وقت ہی انسانی وقار کے تقاضوں پر پورا اتر سکتی ہے، جب بدترین جرائم پیشہ لوگوں کے لئے بھی امکانات کا ایک دروازہ کھلا چھوڑا جائے، انہیں ایک بار پھر آزاد فضا میں زندگی گزارنےکا موقع دیا جائے، تا کہ وہ خود کو اچھے شہری ثابت کرسکیں۔

دوسری جانب قانون کی بالادستی کی علمبردار کسی آئینی ریاست کی نشانی یہی ہے کہ وہ مجرموں کو ان کے جرم کے مطابق سزا دے۔ ایسی سزا، جس میں واضح طور پرقید کی مدت اور رہائی کے وقت کا تعین ہو اورجو جرائم کا نشانہ بننے والوں اور معاشرے کو مطمئن کر سکے۔ کرسٹیان کلارکو 26 سال تک قید میں رکھا گیا جس سے اس کے جرائم کی سنگینی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب عدالت بھی محض بدلے کے جنون میں مبتلا نہیں ہوتی بلکہ اس کا کام محض یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ قیدی رہائی کے بعد پھر سے کس حد تک خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ کرسٹیان کلار کے بارے میں خاصی چھان بین اوریقین دہانیوں کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ سابقہ دہشت گرد اور سزا یافتہ مجرم دوبارہ پہلے کی طرح جرم نہیں کرے گا۔

ہو سکتا ہے Klar کو کرسمس کے مذہبی تہوار کے موقع پرہی قید سے رہائی مل جائے ورنہ جنوری 2009 میں تو اسے رہا کر ہی دیا جائے گا۔ ابھی کرسٹیان کلار کے پاس یہ سوچنے کے لئے کافی وقت ہے کہ رہائی کے بعد اسے پھر سے اس معاشرے میں کیسی زندگی گزارنا ہے جس کے خلاف اس نے 30 سال قبل اپنی دانست میں فاشزم کے خاتمے کے لئے مسلح جنگ شروع کر رکھی تھی۔