آرمی پبلک اسکول سانحہ: سکیورٹی کی ناکامی
25 ستمبر 202016 دسمبر 2014 ء کے دن دہشت گردوں نے پشاور میں قائم آرمی پبلک اسکول میں داخل ہو کر اساتذہ سمیت 150 کے قریب طلباء کو بے رحمانہ طریقے سے قتل کر دیا تھا۔
پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس واقعے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین کی شکایات پر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کی بنیاد پر کیس کی سماعت کی۔ ان والدین کا دعوی ہے کہ اس واقعہ میں ملوث اصل مجرموں کو ابھی تک حکام نے گرفتار نہیں کیا۔
مزید پڑھیے: 'احسان اللہ ہمارا مجرم ہے، ریاست کیسے معاف کر سکتی ہے‘
عدالتی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کو عام کرنے کے حکم کو سوشل میڈیا پر سراہا جا رہا ہے۔
یہ رپورٹ کمیشن کے سربراہ پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد ابراہیم خان نے مرتب کی ہے، جو 525 صفحات اور 4 حصوں پر مشتمل ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں اسکول کی سکیورٹی پر کئی سوالات اٹھانے کے ساتھ ساتھ شدت پسندوں کو مقامی سہولت کاری کا بھی بتایا گیا ہے۔
عدالتی تحقیقاتی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کو مقامی افراد کی جانب سے ملنے والی سہولت کاری ’ناقابل معافی‘ ہے۔ رپورٹ میں لکھا گیا، ’’جب اپنا ہی خون غداری کر جائے تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ اور کوئی بھی ایجنسی ایسے حملوں کا تدارک نہیں کر سکتی۔‘‘
یہ بھی پڑھیے: آرمی پبلک اسکول پر حملے کو پانچ برس بیت گئے
اس کے ساتھ ساتھ تحقیقاتی کمیشن نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ سولہ دسمبر کی صبح دہشت گرد آرمی پبلک اسکول کے عقب سے بغیر کسی مزاحمت کے داخل ہوئے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا، ’’اس واقعہ نے ہمارے سکیورٹی نظام پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، حملہ آوروں کو روکنے کے لیے سکیورٹی پر تعینات اہلکار ناکافی تھے اور ان کی پوزیشن بھی درست نہیں تھی۔ ایسے تمام محافظوں کی تمام تر توجہ مرکزی گیٹ پر مرکوز تھی اور دہشتگرد پچھلے دروازے سے بغیر کسی مزاحمت کے اسکول میں داخل ہوگئے۔‘‘
مزید پڑھیے: ’موت کو قریب سے دیکھا، لیکن میں خوفزدہ نہیں ہوا‘
اس رپورٹ میں اے پی ایس کے واقعے کے بعد فوج کی جانب سے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے نتیجے میں ملک میں دہشتگردی میں نمایاں طور پر بہتری کا بھی تذکرہ کیا گیا۔