آرمینیا اور آذربائیجان امن کے بعد اب ’اگلا قدم‘ بڑھائیں،پوٹن
12 جنوری 2021نگورنو۔ کاراباخ میں چھ ہفتے تک چلنے والی جنگ کے بعد ہونے والے امن معاہدے کے بعد روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پیر کے روز پہلی بار آرمینیائی اور آذری رہنماوں کی پہلی ملاقات کی میزبانی کی۔
پوٹن، آرمینیائی وزیر اعظم نیکول پاشینیان اور آذربائیجانی صدر الہام علی ایوف نے گزشتہ نومبر میں ہونے والے معاہدے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ پوٹن نے کہا کہ امن معاہدے نے ”پرانے تنازعے کے طویل مدتی اور مکمل حل کے لیے ایک ضروری بنیادی فراہم کردی ہے۔"
میٹنگ کا نتیجہ کیا رہا؟
پوٹن نے روس کی جانب سے ثالثی کی کوششوں کے دوران تعاون کے لیے پاشینیان اور علی یوف دونوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس کوشش کا مقصد ”خونریزی کو روکنا، صورت حال کو مستحکم کرنا اور پائیدار جنگ بندی کا حصول تھا۔" انہوں نے کہا کہ اب امن معاہدے کے ”اگلے قدم“ کے بارے میں بات کرنے کا وقت ہے۔
پاشینیان کا کہنا تھا کہ آرمینیا نگورنو۔ کاراباخ کی حیثیت کے بارے میں بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ قیدیوں کے تبادلے کے مسئلے کو ابھی حل کرنا باقی ہے۔
تینوں ممالک 30 جنوری کو معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے ایک ورکنگ گروپ کی پہلی میٹنگ کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔
نگورنو۔ کاراباخ خطہ کیا ہے؟
نگورنو۔ کاراباخ خطہ مغربی آذربائیجان میں ایک متنازعہ علاقہ ہے جو نسلی آرمینیائی فورسز کے کنٹرول میں تھا۔ آرمینیا نے 1994 میں علیحدگی پسندی کی جنگ کے دوران ان فورسز کی مدد کی تھی۔ جنگ کے بعد اس نے آذربائیجان سے آزادی کا اعلان کردیا تھا لیکن بین الاقوامی برادری نے اس کو تسلیم نہیں کیا۔
ستمبر 2020 میں اس خطے میں اس وقت زبردست جنگ چھڑ گئی جب آذربائیجانی فوج اس علاقے میں داخل ہوگئی۔ چھ ہفتے تک چلنے والی جنگ کے دوران چھ ہزار سے زائد افراد مارے گئے۔
امن معاہدے کے تحت آرمینیا نے اس علاقے کو آذربائیجان کے حوالے کر دیا ہے۔ اس معاہدے کے بعد روس نے خطے میں تقریباً دو ہزار قیام امن فورس تعینات کردی ہے۔ وہ اگلے کم از کم پانچ برس تک اس علاقے میں رہیں گے۔ پوٹن نے کہا کہ معاہدے کے تحت 'اگلے قدم‘ کے طورپرسرحد کی نشاندہی کی جائے گی اور انسانی مسائل کو حل کیا جائے گا۔
امن معاہدے کے خطے پر اثرات
روس کی ثالثی میں نومبر میں ہونے والے معاہدے کے بعد آذری فوج نے ںگورنو کارباخ کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ تاہم سرحدی علاقوں میں کشیدگی برقرار ہے اور وقتاً فوقتاً جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔ فریقین نے جنگی قیدیوں کو ابھی تک رہا نہیں کیا ہے اور خطے میں آمد و رفت کے لیے ایک ممکنہ راہداری کے معاملے پر بھی اختلافات ہیں۔
جنگ بندی کے بعد آرمینیا میں پاشینیان کے خلا ف زبردست مظاہرے ہوئے اور عوام نے ان سے استعفے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ پاشینیان جنگ سے مناسب طریقے سے نمٹنے میں ناکام رہے تاہم پاشینیان نے معاہدے کا دفا ع کرتے ہوئے کہا کہ مکمل قبضے سے آذربائیجان کو روکنے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔
علی یوف کا کہنا تھا کہ یہ تصادم تاریخی غلطیوں کو درست کرنے کا قدم تھا۔ ارمینیا نے تاہم ان کے اس دعوے کو مسترد کردیا۔
خطے پر بین الاقوامی اثرات
آذربائیجان کو ترکی کی حمایت حاصل ہے۔ دونوں ممالک نے 2020 میں تصادم کے آغاز کے بعد سے ہی آرمینیا سے ملحق اپنی اپنی
سرحدیں بند کردی ہیں۔اس بندش کی وجہ سے آرمینیا کی معیشت کافی متاثر ہوئی ہے۔
ماسکو کارنیگی سینٹر میں سیاسی تجزیہ کار دمیتری ٹرینن کا کہنا ہے کہ پوٹن کی آرمینیا اور آذربائیجان کے رہنماوں کے ساتھ بات چیت سے کریملن کو خطے میں اپنے اثرات دوبارہ بحال کرنے میں مدد ملے گی۔
ج ا / ص ز (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)