1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آرمینیائی شامیوں کو پناہ بھی ملی تو اپنے آبائی وطن میں

عاطف توقیر25 جون 2016

شام میں بسنے والے سینکڑوں آرمینیائی نسل کے شامی اپنے گھربار چھوڑنا نہیں چاہتے تھے، مگر شامی خانہ جنگی نے انہیں بوجھل دل سے ہجرت پر مجبور کر دیا اور وہ پھر سے آرمینیا ہی میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1JDV1
Symbolbild Syrien Christen Damascus Flagge Kirche Christliches Kreuz
تصویر: Getty Images/LOUAI BESHARA

چاندی کے برتن تیار کرنے والا آرمینیائی نسل شامی کیوشکریان دیگر افراد کے ہم راہ آرمینیا پہنچ چکا ہے۔ ان باشندوں کے آباؤاجداد اسی علاقے سے شام جا کر آباد ہوئے تھے۔

اب وہ اپنی بوڑھی ماں کے ہم راہ آرمینیا کے دارالحکومت یریوان کے ایک علاقے میں رہ رہا ہے۔ حلب شہر سے فرار ہوتے ہوئے وہ چاندی کے پرانے آرمینیائی برتن اپنے ساتھ لے آیا تھا، جو وہ یہاں ایک مارکیٹ میں سستے داموں فروخت کر کے گزر بسر کر رہا ہے۔

47 سالہ کیوشکریان سن 2015ء میں شام سے ہجرت کر کے آرمینیا کے دارالحکومت یریوان پہنچا تھا۔ کیوشکریان کے مطابق، ’’میں نے پوری زندگی آرمینیا کے ان روایتی چاندی کے برتنوں کو تیار کرنے اور سنبھال کر رکھنے میں بسر کی ہے۔‘‘

Syrien Damaskus 101. Jahrestag Völkermord an Armeniern
شام سے ہزاروں آرمینیائی نسل مسیحی باشندے ہجرت پر مجبور ہوئےتصویر: Reuters/O. Sanadiki

وہ مزید کہتے ہیں، ’’میں اب اس مقدس سرزمین پر پہنچ چکا ہوں، جہاں ان برتنوں کی تیاری کی روایت نے جنم لیا تھا۔‘‘

اس کی بنائی ہوئی چاندی کی پلیٹیں، پیالیوں اور جگ شام میں بنائے گئے تھے، تاہم ان پر پرندوں، تکونیاتی اشکال اور دیگر نقوش آرمینیا کے مخصوص روایتی انداز لیے ہوئے ہیں۔

کیوشکریان ان 18 ہزار آرمینیائی نسل کے شامی باشندوں میں سے ہیں، جنہوں نے شام میں سن 2011ء سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے آرمینیا میں پناہ لے رکھی ہے۔

کیوشکریان کا کہنا ہے، ’’بہت لمبے عرصے تک ہم اپنے گھر بار چھوڑ کر فرار نہیں ہونا چاہتے تھے۔ ہمیں ایک امید سی تھی کہ سب کچھ دوبارہ ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر جب ایک بم میرے کام کرنے کے مقام کے قریب گرا، تو ہم نے جان لیا کہ اب ہمیں ہجرت میں دیر نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

اس فن کار نے اپنی والدہ کو ساتھ لیا اور حلب سے ترکی اور پھر جورجیا کے راستے آرمینیا پہنچا۔ اس دوران اسے راہ میں وہ جہادی بھی ملے، جنہوں نے اسے چاندی کے اُن برتنوں کو فروخت کرنے سے روکا کیوں کہ ان کے مطابق ان پر جانوروں کی تصاویر کنداں تھیں۔

کیوشکریان کا کہنا ہے کہ حلب سے آرمینیا کا یہ طویل سفر بموں کا مسلسل نشانہ بننے والے حلب جتنا ہی خوف ناک تھا۔ اس دوران عسکری گروہوں نے مہاجرین کی بسوں پر حملے بھی کیے اور سرحد پر ترک محافظ دستوں نے مہاجرین کے ساتھ بدسلوکی بھی کی۔