آرمینیائی شامیوں کو پناہ بھی ملی تو اپنے آبائی وطن میں
25 جون 2016چاندی کے برتن تیار کرنے والا آرمینیائی نسل شامی کیوشکریان دیگر افراد کے ہم راہ آرمینیا پہنچ چکا ہے۔ ان باشندوں کے آباؤاجداد اسی علاقے سے شام جا کر آباد ہوئے تھے۔
اب وہ اپنی بوڑھی ماں کے ہم راہ آرمینیا کے دارالحکومت یریوان کے ایک علاقے میں رہ رہا ہے۔ حلب شہر سے فرار ہوتے ہوئے وہ چاندی کے پرانے آرمینیائی برتن اپنے ساتھ لے آیا تھا، جو وہ یہاں ایک مارکیٹ میں سستے داموں فروخت کر کے گزر بسر کر رہا ہے۔
47 سالہ کیوشکریان سن 2015ء میں شام سے ہجرت کر کے آرمینیا کے دارالحکومت یریوان پہنچا تھا۔ کیوشکریان کے مطابق، ’’میں نے پوری زندگی آرمینیا کے ان روایتی چاندی کے برتنوں کو تیار کرنے اور سنبھال کر رکھنے میں بسر کی ہے۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں، ’’میں اب اس مقدس سرزمین پر پہنچ چکا ہوں، جہاں ان برتنوں کی تیاری کی روایت نے جنم لیا تھا۔‘‘
اس کی بنائی ہوئی چاندی کی پلیٹیں، پیالیوں اور جگ شام میں بنائے گئے تھے، تاہم ان پر پرندوں، تکونیاتی اشکال اور دیگر نقوش آرمینیا کے مخصوص روایتی انداز لیے ہوئے ہیں۔
کیوشکریان ان 18 ہزار آرمینیائی نسل کے شامی باشندوں میں سے ہیں، جنہوں نے شام میں سن 2011ء سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے آرمینیا میں پناہ لے رکھی ہے۔
کیوشکریان کا کہنا ہے، ’’بہت لمبے عرصے تک ہم اپنے گھر بار چھوڑ کر فرار نہیں ہونا چاہتے تھے۔ ہمیں ایک امید سی تھی کہ سب کچھ دوبارہ ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر جب ایک بم میرے کام کرنے کے مقام کے قریب گرا، تو ہم نے جان لیا کہ اب ہمیں ہجرت میں دیر نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
اس فن کار نے اپنی والدہ کو ساتھ لیا اور حلب سے ترکی اور پھر جورجیا کے راستے آرمینیا پہنچا۔ اس دوران اسے راہ میں وہ جہادی بھی ملے، جنہوں نے اسے چاندی کے اُن برتنوں کو فروخت کرنے سے روکا کیوں کہ ان کے مطابق ان پر جانوروں کی تصاویر کنداں تھیں۔
کیوشکریان کا کہنا ہے کہ حلب سے آرمینیا کا یہ طویل سفر بموں کا مسلسل نشانہ بننے والے حلب جتنا ہی خوف ناک تھا۔ اس دوران عسکری گروہوں نے مہاجرین کی بسوں پر حملے بھی کیے اور سرحد پر ترک محافظ دستوں نے مہاجرین کے ساتھ بدسلوکی بھی کی۔