آرٹیفیشل انٹیلیجنس انسانیت کو نابود کر سکتی ہے
3 دسمبر 2014برطانوی نشریاتی ادارے کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران تھیوریٹیکل فزکس کے اس عظیم سائنسدان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی ٹیکنالوجی خود میں بہتری لانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس طرح یہ انسانی ذہانت سے بازی لے جا سکتی ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہو سکتی ہے جیسی ٹرمینیٹر نامی فلم سیریز میں دکھائی گئی تھی۔
اس وقت موجود دنیا کے عظیم ترین سائنسدانوں میں شمار ہونے والے اسٹیفن ہاکنگ کے مطابق، ’’مصنوعی ذہانت کی ابتدائی صورتیں جو ہمارے پاس اس وقت موجود ہیں وہ بہت ہی کارآمد ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مکمل مصنوعی ذہانت کو تشکیل دینا انسانی نسل کے خاتمے پر منتج ہو سکتی ہے۔‘‘
اسٹیفن ہاکنگ کے مطابق انسان نے ایک بار مصنوعی ذہانت تشکیل دے لی تو پھر وہ خود بخود اپنے آپ میں بہتری لاتی جائے گی، وہ خود کو زیادہ سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ خود کو ری ڈیزائن کرتی چلی جائے گی۔ ان کا مزید کہنا ہے، ’’انسان اپنے سست حیاتیاتی ارتقاء کے باعث اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گا اور نتیجتاﹰ مصنوعی ذہانت انسانی ذہانت سے کہیں آگے نکل جائے گی۔‘‘
72 سالہ ہاکنگ ’موٹر نیورون‘ نامی اعصابی بیماری میں مبتلا ہونے کے باعث مفلوج زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ خصوصی ’وائس سینتھیزائزر‘ کی بدولت گفتگو کرتے ہیں۔ تاہم وہ ماڈرن کمیونیکیشن ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ان لوگوں میں شریک ہیں جنہوں نے انٹرنیٹ کا استعمال اس کے بالکل ابتدائی دنوں سے شروع کر دیا تھا۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کے جہاں فوائد ہیں وہاں یہ خطرات بھی ساتھ لایا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے برطانیہ کی الیکٹرانک جاسوسی کی ایجنسی GCHQ کے سربراہ کی طرف سے جاری کردہ وارننگ کا بھی حوالہ دیا جس کے مطابق یہ مجرموں اور دہشت گردوں کا کمانڈ سنٹر بن سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’انٹرنیٹ کمپنیوں کو چاہیے کہ اس طرح کے خطرات کو روکنے کے لیے زیادہ اقدامات کریں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ایسے کرتے ہوئے پرائیویسی کے معاملے کو پس پشت نہ ڈالا جائے۔‘‘
اسٹیفن ہاکنگ نے منگل دو نومبر کو ایک انٹیل کمپنی کی طرف سے بنائے گئے ایک نئے سسٹم کو بھی استعمال کر کے دیکھا جس سے انہیں زیادہ رفتار سے لکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ سافٹ ویئر اگلے ماہ یعنی جنوری سے موٹر نیورون نامی اعصابی بیماری سے متاثر افراد کے لیے معاونت کے لیے دستیاب ہو گا۔
انہوں نے سافٹ ویئر میں دیے گئے فیچرز کی تعریف کرتے ہوئے تاہم فیصلہ کیا کہ وہ اپنے اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے پرانے سسٹم کو اپنائے رکھیں گے جس میں ان کی تحریر شدہ عبارت ایک روبوٹک آواز میں سنائی دیتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ آواز اب ان کی پہچان بن چکی جو انگلش لب و لہجے میں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا ’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ بچے جنہیں کمپیوٹر وائس کی ضرورت ہوتی ہے وہ میری جیسی آواز ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘