’آزادی آسانی سے نہیں ملتی، اسے چھیننا پڑتا ہے‘، عمران خان
14 مئی 2023ماضی کے کرکٹ سپر اسٹار کو جو گزشتہ سال اپریل میں اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد سے درجنوں قانونی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، سپریم کورٹ کی طرف سے ان کی نظر بندی کو غیر قانونی قرار دینے کے بعد جمعہ کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔ عمران خان کی گرفتاری سے مشتعل ہو کر ان کے حامیوں نے سرکاری عمارتوں کو آگ لگا دی، سڑکیں بند کر دیں اور فوج کی املاک کو نقصان پہنچایا، جسے وہ خان کی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ عمران خان نے ہفتہ 13 مئی کی رات یوٹیوب پر نشر ہونے والے ایک خطاب میں کہا، ''آزادی آسانی سے نہیں ملتی۔ آپ کو اسے چھیننا پڑتا ہے۔‘‘
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے حامیوں سے پاکستانی وقت کے مطابق ساڑھے پانچ بجے شام کو ایک گھنٹے کے لیے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے کی کال دی ہے۔
پاکستان بھر میں پانچ دن کی ہنگامہ آرائی کے بعد اتوار کی صبح نسبتاً خاموشی دیکھی گئی۔ عمران خان نے فوری انتخابات کے لیے بدھ کو مہم دوبارہ سے شروع کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔
منگل نو مئی کو ان کی گرفتاری دراصل اُس واقعے کے چند گھنٹے بعد عمل میں لائی گئی جس میں عمران خان کی طرف سے گزشتہ سال ان پر ہونے والے ایک قاتلانہ حملے میں اسٹیبلشمنٹ کے سینیئر اہلکاروں پر مبینہ طور پر ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا۔
پاکستان کی طاقتور فوج نے اپنی 75 سالہ تاریخ کے تقریباً نصف مدت تک ملک پر براہ راست حکمرانی کی ہے، اور ناقدین کے مطابق بقیہ وقت بھی اس نے ملک کے سیاسی نظام پر مکمل قابو رکھا ہے۔
عمران خان نے لاہور میں اپنے گھر سے ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ’’آرمی چیف کے اقدامات نے ہماری فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہ ان کی وجہ سے ہوا ہے، میری وجہ سے نہیں۔‘‘ چیئرمین تحریک انصاف نے اپنے بیان میں یہ واضح نہیں کیا کہ ان کی مراد افواج پاکستان کے حاضر سروس سربراہ یا ان کے پیشرو سے ہے، جنہیں عمران خان نے ان کے عہدے پر فائز کیا تھا۔
قبل ازیں انہوں نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ ان کی گرفتاری کے پیچھے ''ایک آدمی، آرمی چیف‘‘ کا ہاتھ تھا۔
دریں اثناء عمران خان نے ان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں میں فوجی تنصیبات پر حملوں کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے خود کو ان واقعات سے الگ کر لیا۔ پی ٹی آئی کے قائد اپنی پارٹی کے کارکنوں کے ان واقعات میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہیں اور انہوں نے ان پُر تشدد واقعات کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
پاکستانی فوج نے، جو عمران خان کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی تردید کرتی ہے، ہفتے کے روز اس ادارے کے خلاف ''غلط فہمیاں‘‘ پیدا کرنے کی کوششوں کے سنگین نتائج سے خبردار کیا۔
پولیس اور مختلف علاقوں کے ہسپتالوں کے مطابق گزشتہ ہفتے کے دوران ملک میں ہونے والے ہنگاموں میں کم از کم 9 افراد ہلاک ہوئے۔ حکام کے مطابق، سینکڑوں پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور 4,000 سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا گیا۔ زیادہ تر گرفتاریاں صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عمل میں آئیں۔
عمران خان کے ایک وکیل نے بتایا کہ احتجاج شروع ہونے کے بعد سے کم از کم 10 سینیئر پی ٹی آئی رہنماؤں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے ہفتے کے روز خبردار کیا تھا کہ تشدد کو ''سہولیات فراہم کرنے، اُکسانے اور اس کا ارتکاب کرنے‘‘ میں ملوث افراد کو 72 گھنٹوں کے اندر گرفتار کر لیا جائے گا۔
اپنے لاہور کے دورے کے دوران شہباز شریف کا کہنا تھا، ’’جن لوگوں نے ریاست مخالف رویے کا مظاہرہ کیا انہیں گرفتار کر کے ان پر انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے گا۔‘‘
ک م/ا ب ا (اے ایف پی، روئٹرز)