آسام کے مسلمانوں کے لیے امریکا میں تشویش
28 اگست 2019اس معاملے پر اب امریکی حکومت کے ایک مشاورتی بورڈ نے بھی اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔ محققین کے مطابق آسام میں شہریوں کی رجسٹریشن پر لوگوں میں شدید تحفطات ہیں کہ اس کی سرکاری مہم کی آڑ میں لاکھوں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنایا جائے گا، جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔
ٹونی پیرکنس امریکی حکومت کے اس مذہبی آزادیوں سے متعلق کمیشن کے سربراہ ہیں۔
ان ک کہنا ہے کہ مذہبی آزادی بھارتی معاشرے کی بنیاد تھی،'' تاہم آسام میں شہریوں کے اندراج کے دوران ممکنہ زیادتیوں کے حوالے سے ہمیں تحفظات ہیں کیونکہ اس میں لوگوں کو اپنے مذہب کی تفصیلات دینا لازمی ہے۔‘‘ ان کے بقول یہ طریقہ بھارت کے مذہبی آزادی کے نظریات کے منافی ہے۔
واضع رہے کہ امریکی حکومت کا مذہبی آزادیوں سے متعلق کمیشن حکام کو صرف سفارشات دیتا ہے تاہم پالیسی بنانا اس کا کام نہیں۔
بھارتی حکومت نے آسام کے رہائشیوں سے کہا ہے کہ بھارتی شہریت کے لیے انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ سن اکہتر سے قبل ان کے والدین یا ان کی اگلی پیڑھی اس ریاست میں رہائش پذیر تھی۔ اس کے لیے لوگوں کو اس مہینے کے آخر تک کی مہلت دی گئی ہے۔ خیال ہے کہ سن اکہتر میں بنگلہ دیش بننے کے بعد بڑے پیمانے پر لوگوں نے آسام کی طرف ہجرت کی تھی۔
اس سال جنوری میں بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں نے بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کے ان تمام شہریوں کو بھارتی شہریت دینے کے حوالے سے ایک قرارداد منظور کی تھی، جو کم از کم چھ سال سے بھارت میں مقیم ہیں اور جن کا مذہب اسلام نہیں ہے۔
بھارت امریکا کا ایک ابھرتا ہوا اتحادی ہے اور واشنگٹن کی جانب سے بھارتی حکومت پر بہت کم ہی تنقید کی جاتی ہے، جس کی ایک مثال مودی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے پر صدر ٹرمپ کا محتاط رویہ بھی ہے۔
ع ا / ش ج