آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس شروع
3 جولائی 2024کریملن کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے رکن ملکوں کے رہنما تنظیم کے اندر کثیر رخی تعاون کو مزید وسعت دینے اور اس کی سرگرمیوں کو بہتر بنانے پر تبادلہ خیال کریں گے۔ اس دوران روسی صدر ولادیمیر پوٹن اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے بھی بات کریں گے۔
دہلی میں ایس سی او سمٹ: بھارت کا پاکستان پر بالواسطہ حملہ
وسطی ایشیا تک 'زمینی رسائی نہ دینے پر' بھارت کی پاکستان پر تنقید
ایس سی او کا قیام روس اور چین نے سن 2001 میں یوریشیا خطے میں سکیورٹی پر توجہ دینے کے لیے ایک فورم کے طورپر کیا تھا۔ اس سال اس کا اجلاس 3 اور 4 جولائی کو قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ہو رہا ہے۔
اجلاس میں کون کون شرکت کررہا ہے؟
روسی صدر پوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ کے علاوہ میزبان صدر قاسم جومارت توقایف، پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف، ازبکستان کے صدر شوکت میر ضیایف، تاجکستان کے صدر امام علی رحمان، کرغزستان کے صدرصدر جباروف، بیلاروس کے صدر الیکزینڈر لوکاشینکو بھی اجلاس میں شرکت کررہے ہیں۔
ایران میں چونکہ صدر ابراہیم رئیسی، جو مئی میں ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے، کا جانشین اب تک منتخب نہیں ہوا ہے اس لیے نگراں صدر محمد مخبر اجلاس میں شرکت کریں گے۔
بھارت نے پاکستان کو ایس سی او سیمینار میں شرکت سے کیوں روکا؟
شی اور پوٹن کی عالمی نظام چیلنج کرنے کی کوشش کامیاب ہو گی؟
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اجلاس میں شرکت نہیں کررہے ہیں لیکن انہوں نے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کو اپنے نمائندہ کے طورپر بھیجا ہے۔ مودی ملکی پارلیمان کے اجلاس میں مصروف ہیں۔ انہوں نے گزشتہ دنوں اٹلی میں گروپ سیون کے اجلاس میں شرکت کی تھی اور بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ مودی بھارت کے روس اور مغرب کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنا چاہتے ہیں۔
رکن ملکوں کے دیگر سربراہوں میں ترکی کے رجب طیب اردوآن اور آذربائیجان کے صدر الہام علی ایف بھی اجلاس میں شرکت کررہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش بھی ایس سی او کے آستانہ اجلاس میں موجود ہوں گے۔ کارنیگی رسیا یوریشیا سینٹر کے ڈائریکٹرالیکزنڈر گابویف کا کہنا ہے کہ گوٹیریش "یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ تمام بڑی کلبوں کے ساتھ بات چیت کرنے والی ایک شمولیتی تنظیم ہے۔"
ان رہنماؤں کے مقاصد کیا ہیں؟
پوٹن یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ سن 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد مغربی ملکوں کی طرف سے عائد پابندیوں کے باوجود روس تنہا نہیں پڑا ہے۔ گوکہ جنگی جرائم کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے پوٹن کی گرفتاری وارنٹ جار ی کررکھا ہے لیکن چونکہ قازقستان اس کنونشن کا فریق نہیں ہے اس لیے وہ انہیں گرفتار کرنے کا پابند نہیں ہے۔
گابویف کے مطابق پوٹن کے لیے یہ میٹنگ "وقار اور اس بات کے اظہار کی علامت ہے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔"
یہ میٹنگ پوٹن اور شی جن پنگ کو یہ دکھانے کا موقع بھی فراہم کرے گا کہ دونوں کے ذاتی تعلقات کا اثر ان کے اسٹریٹیجک تعلقات پر بھی ہے اور دونوں مغرب کے کسی بھی دباو کا سامنا کرسکتے ہیں۔ دونوں رہنماوں کے درمیان اب تک چالیس بار سے زیادہ ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔
میزبان ملک قازقستان اور دیگر وسط ایشیائی ملکوں کے لیے یہ میٹنگ زیادہ طاقت ور پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔
ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)