’آسمان کی جانب دُنیا کی سب سے بڑی آنکھ‘ چلی میں
11 مئی 2010اِس دُوربین کا قُطر بیالیس میٹر ہو گا اور یہ سطحِ سمندر سے تین ہزار ساٹھ میٹر کی بلندی پر نصب ہوگی۔ اِس دُوربین کو تیار کرنے میں سات برس لگیں گے اور یہ سن 2018ء تک مکمل ہو جائے گی۔ اپنی تکمیل کے بعد دُنیا کی یہ سب سے بڑی آپٹیکل ٹیلی سکوپ محققین کوخلاء اور اُس کی کہکشاؤں میں ایسے ایسے مناظر دکھا سکے گی، جو اب تک انسان کی نظروں سے اوجھل چلے آ رہے ہیں۔
ادارے ای ایس او کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ویسے ہی، جیسے تقریباً چار سو برس پہلے گلیلیو کی دُوربین نے کائنات کے بارے میں لوگوں کے پورے تصور کو ہی بدل ڈالا تھا، بالکل ویسے ہی یہ دُوربین بھی کائنات سے متعلق ہمارے اب تک کے نظریات میں انقلابی تبدیلیوں کا باعث بن سکتی ہے۔ اطالوی سائنسدان گلیلیو گالیلے نے سن 1609ء میں آسمانوں کے مشاہدے کے لئے ایک دوربین ایجاد کی تھی، جس کی بدولت ستاروں کی گردش سے متعلق اہم معلومات حاصل ہوئیں۔
ایک اندازے کے مطابق اِس دوربین پر تقریباً ایک ارب یورو لاگت آئے گی۔ یہ دوربین کہاں نصب کی جائے، اِس کے لئے امیدوار ملکوں میں چلی کے ساتھ ساتھ سپین، مراکش، جنوبی افریقہ ا ور ارجنٹائن بھی شامل تھے۔ ای ایس او کے مطابق چلی کے حق میں فیصلہ اِس لئے کیا گیا کیونکہ اتاکاما کے صحرا میں فلکیات کے ماہرین کے لئے حالات انتہائی موزوں اور سازگار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اِس صحرا میں اوسطاً سال میں تین سو بیس راتیں ایسی ہوتی ہیں، جب آسمان بالکل صاف نظر آتا ہے۔
چلی کے حق میں فیصلہ اِس وجہ سے بھی کیا گیا ہے کہ چلی نے دوربین والے مقام کے آس پاس روشنی سے ہونے والی آلودگی مستقبل میں کم کروانے کا یقین دلایا ہے۔ واضح رہے کہ مصنوعی روشنیاں رات کے وقت فلکی اَجسام کو دیکھنا مشکل بنا دیتی ہیں۔ اِس دوربین پر کام کا آغاز دسمبر سن 2011ء میں کیا جائے گا۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: گوہر نذیر گیلانی