آسٹرین نئے نازی سے وفاقی نائب چانسلر تک
17 دسمبر 2017ہائنز کرسٹیان اشٹراخے کو آسٹریا کا چانسلر بننے کی اپنی خواہش کو اب وقتی طور پر پس پشت ڈالنا پڑ گیا ہے۔ عوامیت پسند فریڈم پارٹی (ایف پی او) کے سربراہ اشٹراخے نئی حکومت میں تاہم نائب چانسلر کے عہدے پر فائز ہوں گے۔ انہوں نے فیس بک پر بہت ہی فخریہ انداز میں لکھا، ’’میں قدامت پسند پیپلز پارٹی (او وی پی) کے ساتھ حکومت سازی کے مذاکرات میں ایف او پی کے لیے پچاس فیصد عہدے حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہوں۔‘‘
آسٹرین پیپلز پارٹی کی جانب سے اس مذاکراتی عمل کی سربراہی موجودہ وزیر خارجہ اور مستقبل کے وفاقی چانسلر سباستیان کُرس کر رہے تھے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اس پیش رفت کے بعد آسٹریا میں مہاجرین سے متعلق سخت قوانین بنائے جائیں گے اور ویانا میں حکومتی فیصلوں پر یورپی یونین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔
48 سالہ اشٹراخے اپنی نوجوانی کے دور میں انتہائی دائیں بازو کے حلقوں کے ساتھ رہے تھے۔ تاہم اب وہ اپنے سابقہ رابطوں کو ’ماضی کی غلطیوں‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ نیشنل سوشلسٹ یا نازی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے شبے میں ان کے خلاف ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ اسی طرح تقریباً تیس سال قبل اشٹراخے کو جرمنی میں نیو نازیوں کے ایک اجتماع میں شرکت کے موقع پر گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ وہ آج کل ان باتوں کو یاد نہیں کرنا چاہتے۔
’’یورپی یونین میں ’یونین‘ کی کمی‘‘
یورپ کا ’ٹرمپ‘ چیک جمہوریہ کا ممکنہ وزیراعظم
اے ایف ڈی مہاجرین مخالف جذبات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں
ہائنز کرسٹیان اشٹراخے اب کہتے ہیں کہ نازی سوچ کی تشہیر اور سامیت دشمنی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ تاہم آج بھی وہ دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی انہوں نے مہاجرین کے موضوع پر خاص توجہ دی۔ اشٹراخے نے پندرہ اکتوبر کو قبل از وقت پارلیمانی انتخات کے موقع پر کہا تھا کہ ان کا اولین منصوبہ ’بڑے پیمانے پر ہونے والی یہ بے ہنگم نقل مکانی‘ روکنا ہو گا۔
ان انتخابات میں ایف پی او نے 26 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے، جو 1999ء کے انتخابات میں اس پارٹی کو ملنے والے ریکارڈ ووٹوں یعنی26.8 فیصد کے تقریباً برابر ہے۔ اُس وقت اس پارٹی کی قیادت یورگ ہائیڈر کے ہاتھوں میں تھی۔