آنگ سان سوچی چین کے پہلے دورے پر
10 جون 2015آنگ سان سوچی کا چین کا یہ پہلا دورہ ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق انہتر سالہ سوچی کا یہ دورہ چین اور ان کی جمہوری جماعت کے مابین بہتر تعلقات کی جانب اہم قدم ثابت ہوگا۔ سوچی یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کر رہی ہیں، جب رواں برس نومبر کے دوران میانمار میں عام انتخابات ہونے والے ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی پارٹی (این ایل ڈی) منصفانہ انتخابات کے نتیجے میں واضح کامیابی حاصل کرے گی۔
آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے نیکولیس فیرلے کہتے ہیں کہ سوچی اب یہ نہیں چاہتی کہ چین میانمار میں فوج کی حمایت یافتہ اس حکومت کی سپورٹ جاری رکھے، جس نے انہیں پندرہ برس سے زائد عرصہ گھر پر نظر بند رکھا۔ ان کا کہنا تھا، ’’آنگ سان سوچی پوری کوشش کریں گی کہ وہ انتخابات جیت سکیں۔ وہ یہ بھی جانتی ہیں کہ میانمار کے مستقبل میں چین کا کردار انتہائی اہم ہو گا۔‘‘
اس موقع پر سوچی کے ہمراہ ان کی سیاسی جماعت کا ایک وفد بھی موجود ہے اور انہیں اس دورے کی دعوت چین کی کمیونسٹ پارٹی نے دی تھی۔ سوچی کی سیاسی جماعت این ایل ڈی کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق میانمار کا یہ وفد چینی صدر شی جن پنگ کے علاوہ وزیراعظم لی کیچیانگ سے بھی ملاقات کرے گا تاہم چین کی طرف سے اس بارے میں کوئی بھی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔
دریں اثناء بیجنگ ایئر پورٹ پر میانمار کے چین میں سفارتخانے کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ سوچی چینی صدر سے جمعرات کے دن ملاقات کریں گی اور ان کا قیام بھی اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں ہوگا۔
ماضی میں چین کے میانمار کے ساتھ تعلقات انتہائی خوشگوار رہے ہیں لیکن حالیہ کچھ عرصے سے ان میں سرد مہری آئی ہے۔ اس کی ایک وجہ میانمار حکومت کے مغرب اور خاص طور پر امریکا کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں اور دوسری وجہ میانمار کی ملک کے شمال میں آباد چینی کوکانگ نسل کے خلاف فوجی آپریشن بھی ہے۔