1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آنگ سان سوچی کیس، فیصلہ گیارہ اگست تک موخر

31 جولائی 2009

میانمار کی عدالت نے اپوزیشن رہنما آنگ سان سوچی کے خلاف مقدمے کا فیصلہ گیارہ اگست تک کے لئے موخر کر دیا ہے۔ عدالت کوجمعہ کے روز اس مقدمے کا فیصلہ سنانا تھا۔

https://p.dw.com/p/J0s1
سوچی کو پانچ سال تک کی قید کی سزا سنائی جا سکتی ہےتصویر: AP

اس انتہائی اہمیت کے حامل مقدمے کی سماعت کرنے والے ججوں کے مطابق انہیں مقدمے کے فیصلے تک پہنچنے سے قبل مزید وقت درکار ہے تاکہ وہ کیس کا باریک بینی سے جائزہ لے سکیں۔ اپوزیشن جماعت نیشنل لیگ برائے جمہوریت NLD کی رہنما اور جمہوریت کی علامت سمجھی جانے والی آنگ سان سوچی کے خلاف نظر بندی ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک امریکی شہری کو اپنے گھر ٹھہرانے کے الزام کا سامنا ہے۔ مغربی حکومتوں کی شدید تر مذمت کے باوجود عدالت کی جانب سے نوبل امن انعام یافتہ سوچی کے خلاف فیصلہ سنائے جانے کا قوی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

عدالت اگر اس مقدمے میں سوچی کو قصوروار ٹھہراتی ہے، تو انہیں پانچ سال تک کی قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ سوچی پر الزام ہے کہ رواں برس مئی میں جب وہ اپنے گھر میں نظر بند تھیں توایک امریکی شہری John Yettawجھیل کی جانب سے تیرتے ہوئے ان کے گھر پہنچے، جہاں سوچی نے انہیں اپنے ہاں ٹھہرایا۔ 53 سالہ جان یٹیاؤ کا کہنا ہے کہ وہ اپوزیشن رہنما کو صرف خبردار کرنے گئے تھے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور ممکنہ طور پر انہیں قتل کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ مئی میں عدالت کے سامنے اپنے بیان میں جان یٹیاؤ نے خود کو ’’ خدا کی جانب سے بھیجا ہوا شخص‘‘قرار دیا تھا۔

Philippinen Myanmar Birma Demonstration für Aung San Suu Kyi
سوچی میانمار میں جمہوریت کی علامت سمجھی جاتی ہیںتصویر: AP

64 سالہ آنگ سان سوچی کے وکلا اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جان یٹیاؤ نے نظربند رہنما کے ہاں قیام کیا تھا تاہم وکلاء صفائی کا کہنا ہے کہ اُس صورت حال میں آنگ سان سوچی کے بس میں یہ نہیں تھا کہ وہ کسی کو اپنے گھر آنے سے روک سکیں اور اس ضابطے کی خلاف ورزی کی مرتکب وہ نہیں بلکہ گھر کے چاروں جانب پہرے پر مامور وہ سیکیورٹی اہلکار ہیں، جن کے پہرے کے باوجود یٹیاؤ سوچی کے گھر میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ان وکلاء کا موقف ہے کہ پہرےداروں کو چاہئے تھا کہ وہ یٹیاؤ کو سوچی کے گھر میں داخل نہ ہونے دیتے۔ میانمار کی فوجی حکومت نے آنگ سان سوچی کوگزشتہ 20 برسوں میں سے 14 برس تک قید میں رکھا ہے۔

وکلاء نے اس امکان کا بھر پور اظہار کیا ہے کہ عدالت سوچی کے خلاف فیصلہ سنائے گی۔ جمعے کے روز ینگون میں اس مقدمے کی مختصر سماعت کے بعد سوچی کے وکیل نائن ِون نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے فیصلہ ملتوی کرنے کی کوئی وجہ تک نہیں بتائی۔

عدالتی فیصلے میں تاخیر کے حوالے سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل سے وابستہ Benjamin Zawacki کا کہنا ہے : ’’یہ ایک مشکوک عمل ہے کیونکہ عدالتوں کو عموما ایسے مقدمات میں زیادہ وقت درکار نہیں ہوتا، مگر ہم سب جانتے ہیں کہ مقدمے کا فیصلہ تو بہت پہلے ہی ہو چکا ہے۔ یہ مکمل طور پر سیاسی فیصلہ ہو گا نہ کہ قانونی۔‘‘

یورپی یونین کی طرح میانمار کی فوجی حکومت پر پابندیاں عائد کرنے والی واشنگٹن حکومت نے جمعرات کی رات مطالبہ کیا ہے کہ فوجی جنتا حکومت کو سوچی سمیت دیگر 21,00 سیاسی قیدیوں کو فوری اورغیر مشروط طور پر رہا کر دینا چاہئے۔

رپورٹ : عاطف توقیر

ادارت : عاطف بلوچ