آگ اور خون: قذاقستان میں پرتشدد مظاہرے، تصویری رپورٹ
قذاقستان میں گیس کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف پر تشدد مظاہروں میں ایک ہزار سے زائد افراد زخمی اور درجنوں ہلاک ہو گئے۔ روسی اتحادی افواج بھی ملک میں داخل ہو چکی ہیں۔ قذاقستان میں ہونے والے واقعات اس تصویری رپورٹ میں
مظاہروں کی وجہ قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافہ
قزاقستان میں مائع قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے۔ بدھ پانچ جنوری کو الماتی میں مظاہرین نے صدارتی رہائش گاہ اور میونسپل عمارت پر دھاوا بول دیا اور دونوں عمارتوں کو آگ لگا دی۔ حالیہ دنوں میں، پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس، سٹن گرینیڈ، واٹر کینن اور یہاں تک کہ براہ راست فائرنگ کا بھی استعمال کیا۔
روسی دستے قذاقستان میں
پرتشدد مظاہروں کے بعد قازق صدر قاسم جومارت توکائیوف نے روس کی قیادت میں قائم اجتماعی سلامتی کے معاہدے کی تنظیم (CSTO) سے مدد کی اپیل کی۔ روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا کی طرف سے جمعرات کو ایک بیان میں تنظیم کے سیکرٹریٹ نے کہا کہ مجموعی سلامتی معاہدہ تنظیم (CSTO) کے امن دستوں کو ایک محدود وقت کے لیے جمہوریہ قذاقستان بھیج دیا گیا ہے تاکہ حالات کو مستحکم اور معمول پر لایا جا سکے۔
مظاہروں کا آغاز
جنوب مغربی قازق شہر جاناؤزن میں اتوار دو جنوری کو پر تشدد مظاہرے پھوٹ پڑے، جو طویل عرصے سے حکومت مخالف مظاہروں کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ منگل کو دارالحکومت نور سلطان اور قذاقستان کے سب سے بڑے شہر الماتی میں بڑے پیمانے پر احتجاج کے ساتھ احتجاج تیزی سے دوسرے شہروں تک پھیل گیا۔
فوجی دستوں اور بکتر بند گاڑیوں کا استعمال
گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین سے نمٹنے کے لیے فوجی دستوں اور بکتر بند گاڑیوں کا بھی استعمال کیا گیا۔
مظاہرین کی طرف سے سرکاری عمارات نذر آتش
مظاہرے تشدد کی شکل اختیار کر گئے۔ کئی سرکاری گاڑیوں اور سرکاری عمارتوں کو آگ لگا دی گئی۔
مظاہرین پر فائرنگ
مظاہروں کے دوران سکیورٹی فورسز کی طرف سے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ بھی کی گئی۔
کابینہ کا استعفیٰ
مظاہروں کے عروج پر وزیر اعظم عسکر مامن اور ان کی کابینہ نے استعفیٰ دے دیا۔ قذاقستان کے صدر قاسم جومارت توکائیوف نے بدھ کی صبح کابینہ کا استعفیٰ منظور کرنے کے بعد کہا کہ وہ احتجاج کو روکنے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کریں گے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے چیئرمین کریم ماسیموف کو بھی معزول کر دیا گیا۔
با اوجگیری اعتراضها وضعیت فوقالعاده در قزاقستان اعلام شد. همزمان دسترسی به سایتهای خبری قطع شد و به گزارش سازمان دیدهبان فضای مجازی "شبکه اینترنت در قزاقستان کاملا قطع شده است".
فوج کو کارروائی کرنے کی ہدایت
جمعرات چھ جنوری کی صبح، قازق صدر نے اعلان کیا کہ انہوں نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ ’’دہشت گردی‘‘ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے لیے کارروائی کرے۔
ایک ہزار سے زائد افراد زخمی
قذاقستان کی وزارت صحت نے جمعرات کو اعلان کیا کہ بدامنی میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ قزاقستان کے نائب وزیر صحت اظہر گنیت کے مطابق، ’’ان میں سے تقریباً 400 ہسپتال میں داخل ہیں اور 62 انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں ہیں۔‘‘
قانون شکنی کرنے والوں کو انتباہ
قذاقستان کے صدر قاسم جومارت توکائیوف نے بدھ کو ایک ٹیلی ویژن تقریر میں کہا، ’’ہم قانون شکنی کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹیں گے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی وعدہ کیا کہ وہ جلد ہی دور رس سیاسی اصلاحات کریں گے اور جب تک بدامنی جاری رہے گی وہ ذاتی طور پر قومی سلامتی کونسل کی سربراہی کریں گے۔
درجنوں ہلاکتیں
حکومتی ذرائع نے بتایا کہ مظاہرین میں سے کچھ مسلح بھی تھے۔ قذاقستان کی وزارت داخلہ نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ پولیس افسران اور نیشنل گارڈز کے 18 ارکان ہلاک ہوئے۔ الماتی پولیس نے جمعرات کو کہا کہ سرکاری عمارتوں پر حملوں کے دوران جھڑپوں میں ’’درجنوں افراد‘‘ مارے گئے۔