اب آسٹریا میں بھی نقاب پر پابندی لگانے کا منصوبہ
30 جنوری 2017آسٹریا کی حکومت کی طرف سے انتہائی دائیں بازو کی جماعت فریڈم پارٹی FPO کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا راستہ روکنے کے لیے مختلف پالیسیوں کا اعلان کیا گیا ہے، جن میں مسلمان خواتین کے نقاب پہننے پر پابندی کا منصوبہ بھی شامل ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گزشتہ کئی ماہ سے آسٹریا کی فریڈم پارٹی عوامی جائزوں میں مقبولیت کے حوالے سے سرفہرست ہے۔ اس جماعت کی بڑھتی مقبولیت کی ایک وجہ یورپ کو درپیش مہاجرین کا بحران بھی ہے۔ گزشتہ ماہ اس جماعت کے امیدوار صدارتی انتخابات جیتنے کے کافی قریب پہنچ گئے تھے۔
آسٹریا میں نئے پارلیمانی انتخابات آئندہ برس ہونا ہیں۔ اس تناظر میں اعتدال پسند بائیں بازو کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی SPO سے تعلق رکھنے والے آسٹریا کے چانسلرکرسٹیاں کیرن ان کوششوں میں ہیں کہ وہ اپنے قدامت پسند اتحادی پارٹنرز کے ساتھ مختلف معاملات پر اتفاق رائے پیدا کریں۔ ان میں تعلیم سے لے کر مہاجرت تک کے معاملات شامل ہیں۔
اتحادیوں کے ساتھ طے پانے والے ایک معاہدے میں کہا گیا ہے، ’’ہم کھلے معاشرے پر یقین رکھتے ہیں، جس کا انحصار رابطوں میں آزادی پر بھی ہے۔ عوامی مقامات پر پورے جسم کا پردہ اس میں حائل ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اس پر پابندی ہو گی۔‘‘
یہ اصطلاح مسلمان خواتین کی طرف سے استعمال ہونے والے برقعے اور چہرے کے نقاب پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ FPO ملک میں ’’فاشزم سے متعلق اسلام‘‘ پر پابندی کا مطالبہ کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ اُس ملکی قانون کے تحت مسلمانوں سے متعلق علامات پر بھی پابندی کی حامی ہے، جو نازی علامات استعمال کرنے پر پابندی عائد کرتا ہے۔
زیادہ تر کیتھولک مسیحی آبادی پر مشتمل یورپی ملک آسٹریا میں قریب چھ لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ آسٹریا کی کُل آبادی 87 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔