ساتھ ہی یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ ہر وہ شخص اس آسامی کے لئے درخواست دینے کا اہل ہو، جو کسی اچھے نجی یا سرکاری ادارے میں کام کرنے کا بیس سالہ تجربہ رکھتا ہو اور اس میں دس برس کا انتظامی تجربہ بھی شامل ہو۔ گویا اب میں ایم اے پاس بھی کسی یونیورسٹی کا وائس چانسلر بن سکتا ہوں۔
کچھ برس پہلے تک سندھ میں کسی بھی سرکاری جامعہ کے وائس چانسلر کی تقرری و تبدیلی کے معاملات صوبائی گورنر ( چانسلر ) دیکھتا تھا تاکہ کم ازکم سیاسی مداخلت کے بغیر کسی مناسب شخصیت کا تقرر ہو سکے۔ پھر یہ ذمہ داری بھی صوبائی اسمبلی میں قانونی ترمیم کے بعد وزیرِ اعلیٰ کے دفتر کو سونپ دی گئی۔
چنانچہ ایک سرچ کمیٹی بنائی گئی، جو تقرری کے لئے تین نام پیش کرتی اور ان میں سے ایک نام کی حتمی منظوری مل جاتی۔ مگر مسئلہ یہ پیدا ہو گیا کہ ہر امیدوار خود کو اہل ثابت کرنے کے لئے ہر ممکن بھاگ دوڑ میں جٹ گیا۔ غیر معروف ریسرچ جرنلز میں لشٹم پشٹم تحقیقی کام چھپوا کے مقالات کی مطلوبہ تعداد پوری کرنے کی دوڑ شروع ہو گئی۔ ذاتی پسند و ناپسند اور تعصبات بھی آڑے آنے لگے اور یوں کچھ یونیورسٹیوں میں طے شدہ مدت کے لئے باقاعدہ شیخ الجامعہ کی تقرری کا فیصلہ مشکل تر ہو گیا۔
چنانچہ سرچ کمیٹی کی سفارشات پڑی رہیں اور بہت سی جامعات میں عارضی بنیادوں پر وائس چانسلر کی ذمہ داریاں کسی ایک کو سونپ دی گئیں۔ یوں یونیورسٹی کا سارا نظام بے یقینی کے پنڈولم سے بندھ گیا۔
اب سے چالیس برس پہلے تک روایت تھی کہ جامعہ کا وائس چانسلر کوئی ایسی شخصیت ہو، جس کے سبب کرسی کا وقار دوبالا ہو جائے۔ مثلاً ہمارے دور سے پہلے کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی کرسی پر ڈاکٹر اے بی حلیم، اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر محمود حسین اور ہمارے ہوتے ہوئے ڈاکٹر احسان رشید، ڈاکٹر معصوم علی ترمذی، ڈاکٹر جمیل جالبی اور ڈاکٹر وہاب جیسے جید اس کرسی کو رونق بخشتے رہے۔
ان کی علمی و تحقیقی خدمات کا نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ادراک و اعتراف کیا جاتا تھا۔ اسی طرح مجھے سندھ یونیورسٹی کے تناظر میں شیخ ایاز اور غلام مصطفیٰ شاہ جیسے علمی ستون یاد آ رہے ہیں۔ آج اگر پاکستان کی سب سے بڑی کراچی یونیورسٹی کے کسی طالب یا طالبہ سے وائس چانسلر کا نام اچانک پوچھ لیا جائے تو وہ درست یا غلط جواب دینے میں بھی کم ازکم دو منٹ ضرور لیتا ہے۔
ایک اور مہربانی ضیاء دور میں ہوئی، جب تعلیمی اداروں میں طلبا یونینوں پر پابندی لگا کے مستقبل کی سیاسی نرسری کو بانجھ کر دیا گیا۔ چنانچہ سیاست میں، جو نئی نسل صفِ اول اور دوم میں آئی، اس کا دانشورانہ معیار آج کسی سے پوشیدہ نہیں۔ دوسری مہربانی یہ ہوئی کہ پہلی بار ریٹائرڈ جرنیلوں کو پبلک یونیورسٹیوں میں من پسند ڈسپلن قائم کرنے کے لئے وائس چانسلر سمیت اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز کیا جانے لگا۔
اس سلسلے میں پہلا تقرر ضیاء دور میں ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کے بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر ہوا۔ اب تک دو بریگیڈیئر اس عہدے پر جبکہ ایک پرو وائس چانسلر کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں ( واضح رہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کے پہلے بانی وائس چانسلر پروفیسر کرار حسین تھے، جن کا نام آتے ہی آج بھی بلوچستانی نگاہیں احترام سے جھک جاتی ہیں)۔
خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر ایک ریٹائرڈ کرنل صاحب تھے۔ ان کا تکیہ کلام تھا ''ڈنڈہ کر دوں گا‘‘۔ پھر اس کرسی پر ایک بریگیڈیئر کا تقرر ہوا۔ زرعی یونیورسٹی لس بیلہ میں بھی ایک بریگیڈیئر صاحب وی سی رہے۔
انیس سو ترانوے میں ملک کی سب سے پرانی پنجاب یونیورسٹی میں لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ محمد صفدر کی بطور وائس چانسلر چار برس کے لئے تقرری ہوئی۔ پھر انیس سو ننانوے میں سات برس کے لئے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ارشد محمود وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں بھی ایک لیفٹیننٹ جنرل نے بطور وائس چانسلر دوہری مدت پوری کی۔
پشاور یونیورسٹی میں ایک ریٹائرڈ میجر جنرل اور پھر ایک سابق کور کمانڈر وائس چانسلر رہے۔ ایک ریٹائرڈ ایئر وائس مارشل یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور کے سربراہ رہے۔
ایک زمانہ تھا کہ جامعات میں پولیس کا داخلہ اخباری شہ سرخی بنتی تھی اور فوراﹰ جامعات کی انتظامی و تعلیمی خودمختاری کا سوال اٹھ جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ ہر عہدہ اور روایت پتلی تماشے کی نذر ہوتے چلے گئے۔ اب کئی سرکاری یونیورسٹیاں برسوں سے چھاؤنیوں کا منظر پیش کرتی ہیں، حساس و غیر حساس ادارے جب چاہیں کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخل ہو کر مطلوبہ شخص یا طالبِ علم کو وجہ بتائے بغیر اٹھانے سے نہیں جھجکتے اور سماج و سیاست نے اسے ایک نیا معمول سمجھ کے قبول کر لیا ہے۔
دیکھا دیکھی نجی یونیورسٹیوں میں بھی تعلیمی معیار کو نہ صرف بے لگام کمرشل ازم سے باندھ دیا گیا بلکہ طلبا کو ایک خاص فکری سانچے میں ڈھال کر برائیلر گریجویٹ بنانے کے لئے ڈسپلن کے نام پر تجسس کی آبیاری اور سوال کرنے کی صلاحیت و جرات چھین کر روبوٹک ذہن سازی کے ساتھ بے روزگاری کی مارکیٹ میں دھکیلا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ تعلیمی اداروں میں اقرباء پروری اور جنسی ہراسانی کی شکایات کو بھی ڈسپلن سے بغاوت جان کے سخت تادیبی کارروائی کی جاتی ہے۔
آج یہ سب مناظر دیکھ کر وہ کہاوت بے معنی و مزاحیہ محسوس ہوتی ہے کہ یونیورسٹیاں علم سازی کا مرکز ہوتی ہیں۔ یا کلاس روم کی چار دیواری میں علمی بحث کے دائرے میں ہر سوال جائز ہے تاکہ مزید امکانات کھل سکیں اور نئی پود پرانی نسل کے ہاتھ سے اعتماد کی مشعل لے کر سماج کو بھی آگے بڑھا سکے۔
مگر جہاں مذکورہ بالا اقدامات و زوال پسندی کی حوصلہ افزائی کے سبب طالبِ علم بھی ڈرا ہوا ہو اور استاد اس سے بھی زیادہ خوفزدہ ہو۔ اس کی ایک آنکھ کلاس پر اور دوسری آنکھ اپنے ساتھی اساتذہ پر ہو۔ ریسرچ کے نام پر چھپائی و سرقے کا بول بالا ہو، وہاں کیسی علم سازی اور کہاں کی تجسس نوازی؟
پھر لاکھوں روپے کے صرفے سے اس موضوع پر مسلسل سیمنیار ہوتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی ادارے باقی دنیا سے آخر اتنے پیچھے کیوں ہیں؟ ہماری ڈگریوں کو باہر والے گھاس کیوں نہیں ڈالتے؟ ہمارے طلبا اعلیٰ پروفیشنل ڈگریاں ہاتھ میں لئے جوتیاں کیوں چٹخاتے پھر رہے ہیں؟
ان تمام سوالوں کے جوابات اوپر سے نیچے تک سب کو معلوم ہیں مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ اب اوپر والا خود تو اتر کے نیچے آنے سے رہا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔