اتحادیوں کی نگرانی ضروری ہے، این ایس اے
30 اکتوبر 2013امریکی کانگریس میں ایک سماعت کے دوران این ایس اے کے ڈائر یکٹر جیمز کلیپرکا کہنا تھا کہ این ایس اے میں کام کرنے والے امریکی قوم کے بہترین افراد ہیں۔ اسی طرح این ایس اے کے سربراہ کیتھ الیگزینڈر کا کہنا تھا کہ امریکا میں یورپی ایجنسیاں بھی ان کی جاسوسی کرتی ہیں۔ ان کے مطابق غیر ملکی سیاستدانوں کی جاسوسی سبھی کرتے ہیں۔ قبل ازیں امریکی حکومت نے بھی وسیع پیمانے پر معلومات جمع کرنے کے عمل کا دفاع کیا تھا۔
امریکا کی جانب سے عالمی رہنماؤں کی فون کالز کی نگرانی کے تنازعے نے ان دنوں خاصی ہلچل مچائی ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ جاسوسی سے متعلق ايسے بيش تر انکشافات اور الزامات کے پيچھے نيشنل سکيورٹی ايجنسی کے سابق کانٹريکٹر ايڈورڈ سٹوڈن ہيں، جو ان دنوں روس ميں عارضی سياسی پناہ پانے کے بعد وہيں مقيم ہيں۔
جیمز کلیپر نے این ایس اے کی سرگرمیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا، ’’میں انٹیلیجنس کے شعبے سے پچاس برسوں سے وابستہ ہوں۔۔۔ یہ بات مفید ہے کہ ہم یہ جان سکیں کہ ملکوں کی پالیسیاں کیا ہیں اور وہ کس طرح مختلف امور پر اثر اندار ہوتی ہیں۔ سو یہ صرف عالمی رہنماؤں کی بات نہیں ہے بلکہ یہ ان پالیسیوں کے بارے میں ہے جو وہ اپنی حکومتوں کے سامنے رکھتے ہیں۔‘‘
یاد رہے کہ چند روز قبل جرمن اخبار ڈيئر اشپيگل کی ايک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ امريکی خفيہ ادارے سن 2002 سے جرمن چانسلر انگيلا ميرکل کی جاسوسی کر رہے ہيں۔ اسی رپورٹ ميں يہ بھی لکھا ہے کہ ’اوباما نے ميرکل سے کہا کہ اگر انہيں اس بات کا علم ہوتا، تو وہ اس عمل کو رکوا ديتے۔‘ ان رپورٹوں کے سامنے آنے کے بعد جرمن حکومت نے امریکا سے اپنی برہمی کا اظہار کیا تھا۔
اسی تناظر ميں گزشتہ ہفتے برسلز ميں ہونے والے يورپی يونين کے اجلاس ميں اس نتيجے پر پہنچا گيا تھا کہ انٹيليجنس سے جڑے معاملات ميں نئے ’سمجھوتے يا معاہدے‘ کی ضرورت ہے اور جرمنی اور فرانس رواں سال کے اختتام تک واشنگٹن انتظاميہ کے ساتھ ايسے کسی معاہدے کو حتمی شکل دينے کی کوشش کريں گے۔
اتوار کو جرمن حکومت نے کہا تھا کہ اگر امریکا کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی جانب سے چانسلر میرکل کے فون کی جرمن سر زمین پر نگرانی کا الزام درست ثابت ہو گیا تو وہ اسے ایک ’’جرم‘‘ قرار دے کر کارروائی کا آغاز کرے گی۔
اتوار کے روز جرمن وزیر داخلہ ہانس پیٹر فریڈرش نے جرمن اخبار بِلڈ آم زونٹاگ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فون کی نگرانی ایک ’’مجرمانہ عمل‘‘ کے زمرے میں آتی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’اگر امریکیوں نے جرمنی میں موبائل فون ’ٹیپ‘ کیے ہیں تو انہوں نے جرمن سرزمین پر جرمن قانون توڑنے کا ارتکاب کیا ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کارروائی ہو گی۔