اتر پردیش کی وزیر اعلیٰ مایا وتی پھر تنازعے کی شکار
16 مارچ 2010اُتر پردیش میں مایا وتی کی جماعت ’بہوجن سماج پارٹی‘ کے پچیس سال پورے ہونے کے موقع پر کل پیر کو ’سلور جوبلی‘ کا جشن منایا گیا۔ اس تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ مایا وتی کو اپنی جماعت کے ارکان نے تحفے کے طور پر ایک ایک ہزار روپے نوٹوں کا ایک بہت بڑا ہار پہنایا۔ محتاط اندازوں کے مطابق اس ہار کی قیمت سات کروڑ روپے بنتی ہے جبکہ ’بہوجن سماج پارٹی‘ کی اس خصوصی تقریب پر مجموعی طور پر دو سو کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ پارٹی کی پچیسویں سالگرہ کے موقع پر منعقد کی گئی اس ریلی میں تقریباً پانچ لاکھ افراد شریک تھے۔
اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ بہوجن سماج پارٹی کے سلور جوبلی جشن پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے کے لئے سرکاری خزانے کے کروڑوں روپے پانی کی طرح بہائے گئے۔ اتر پردیش میں کانگریس کی رہنما ریتا جوشی نے الزام عائد کیا کہ مایاوتی کی حکومت عوام کو گمراہ کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مایاوتی اپنی خوشیاں لوگوں پر مسلط کرتی ہیں۔تاہم بہوجن سماج پارٹی کے عہدے داروں نے ان الزامات کو مسترد کردیا ہے۔
بہوجن سماج پارٹی یا ’بی ایس پی‘ کی سلور جوبلی کے موقع پر مایا وتی نے اپنی جماعت کے اراکین اور ووٹرز کا بھرپور انداز میں شکریہ ادا کیا۔ مایا وتی نے کہا کہ لوگوں کے تعاون سے اترپردیش میں کافی حد تک ترقی ہوئی ہے۔’’آپ لوگوں نے مجھے اور میری جماعت کو ہر قسم کا تعاون فراہم کیا ہے۔ آپ نے بہوجن سماج پارٹی کو اقتدار میں لانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے آپ کی مدد سے اس ریاست میں آپ کی خواہشات کے عین مطابق بہت سے کام پورے کر لئے ہیں۔‘‘
54 سالہ مایا وتی کماری بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ بھی ہیں۔سیاست کے میدان میں کودنے سے پہلے مایا وتی ایک سکول ٹیچر تھیں۔ انہوں نے بھارت میں پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے ’دلتوں‘ کے حق میں آواز اٹھا کر سیاسی میدان میں ہلچل مچائی۔
ہندو سماج میں معاشی اعتبار سے سب سے پسماندہ طبقے کو ’دلت‘ کہا جاتا ہے۔ موہن داس کرم چند گاندھی نے تلقین کی تھی کہ اس طبقے کو ’ہریجن‘ بلایا جائے۔ ہریجن کا مطلب ’خدا کا بچہ‘ ہے۔
بہوجن سماج پارٹی کی بنیاد مایا وتی کے سیاسی گرو کانشی رام نے سن 1984ء میں رکھی تھی۔ یوں تو یہ جماعت پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو سماج میں ان کا صحیح مقام دلانے کی بات کرتی ہے، لیکن ناقدین کہتے ہیں کہ مایا وتی کو کمزور لوگوں کی بجائے زیادہ فکر خود اپنی تشہیر کی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق مایا وتی کی ریلی کے لئے دس ہزار پولیس اہلکار سیکیورٹی پر تعینات تھے، سولہ سو ریاستی اور آٹھ سو نجی بسوں کی خدمات لی گئیں، بہوجن سماج پارٹی کے تقریباً تیس ہزار کارکنوں کے لئے کھانے پینے کا بھرپور انتظام تھا جبکہ نئی دہلی، کولکتہ اور ممبئی جیسے شہروں سے ایک ہزار کوئنٹل پھول منگوائے گئے تھے۔
اس سے پہلے بھی مایا وتی کئی تنازعات کی شکار رہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں ریاست بھر کی پارکس میں مایاوتی اور اُن کی پارٹی کے دیگر دلت رہنماوٴں کے مجسمے کھڑے کرنے پر تقریباً دو ہزار کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔ اس حکومتی فیصلے کو عدالت میں چیلنج بھی کیا گیا ہے۔ تاہم مایا وتی کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے۔ سلور جوبلی ریلی میں انہوں نے کہا کہ ’قانون کی کس کتاب میں یہ لکھا ہےکہ آپ اپنے مجسمے کھڑے نہیں کر سکتے۔‘‘
اُترپریش، آبادی کے اعتبار سے، بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ تقریباً اٹھارہ کروڑ نفوس پر مشتمل اس ریاست میں غریب لوگ اکثریت میں ہیں۔ مایا وتی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ نے خود تو سات کروڑ کا ہار گلے میں پہنا، لیکن اُن کر ریلی میں شریک ان کے ہزاروں مداحوں میں سے ایک بہت بڑی تعداد اُن لوگوں کی ہے، جنہیں دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہے۔ دوسری جانب اُن کے پرستاروں کا کہنا ہے کہ تنازعات میں گھرے رہنے کے باوجود اترپردیش جیسی ریاست میں ’’مایا وتی کی مایا چلتی ہے۔‘‘
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی
ادارت: ندیم گل