1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اجتماعی جنسی عمل، گوانتانامو کے سابق قیدی کی یادداشتیں

21 جنوری 2015

موریطانیہ کے ایک شہری نے جسے 2002ء سے گوانتاناموبے میں قید رکھا گیا، قید کے ایام کی یاداشتوں پر مبنی ایک کتاب شائع کی ہے۔ اس کتاب میں اس نے تفتیش کے اُن طریقوں سے پردہ اٹھایا ہے جن کی مثال نہیں ملتی۔

https://p.dw.com/p/1EOYJ
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Linsley

محمدُو اولد صلاحی کی کتاب گوانتانامو ڈائری دراصل اس کی گرفتاری سے لے کر بعد کے ان تمام واقعات پر مبنی ہے جو اسے گوانتانامو میں دوران قید پیش آئے۔ ٹارچر کے اِن طریقوں میں غیر معمولی اذیت، مار پیٹ، نیند سے محرومی، زبردستی کھلانے پلانے سے لے کر یہ مایوسی پیدا کرنے کی کوشش بھی شامل تھی کہ وہ کبھی بھی جیل سے باہر نہیں نکل سکے گا۔

اس کتاب کی اشاعت کے لیے ایک برس تک لڑی جانے والی قانونی جنگ کے بعد گوانتامو ڈائری امریکا اور متعدد یورپی ملکوں میں پیش کی گئی ہے۔ تاہم اس کتاب کا حتمی مسودہ بھی امریکی فوج کے ہاتھوں سنسر سے محفوظ نہیں رہا۔

صلاحی کے مطابق گوانتانامو بے میں امریکی تفتیش کاروں کی طرف سے دوران تفتیش ایسے ایسے طریقے اختیار کیے گئے جو انتہائی شرمناک اور تکلیف دہ تھے۔ ایسے ہی ایک واقعے کا وہ اپنی ایک کتاب میں ذکر کرتے ہیں۔ تاہم شائع شدہ کتاب میں امریکی فوج کی طرف سے اس واقعے کے بارے میں بیان میں کئی مقامات پر الفاظ حذف کر دیے گئے ہیں۔

صلاحی لکھتے ہیں کہ انہیں تکلیف پہنچانے کے لیے انہیں زبردستی جنسی عمل پر بھی مجبور کیا گیا۔ ان کی کتاب میں درج ایک واقعے کے مطابق دو خواتین ان کے سامنے بے لباس ہو کر انہیں جنسی عمل کے لیے اکساتی رہیں اور عریاں فلموں میں دکھائے جانے والے مناظر کی طرح ان کے ساتھ سلوک کرتی رہیں۔

ایک رپورٹ میں صالحی پر روا رکھے جانے والے تشدد کی تفصیل بیان کی گئی تھی
ایک رپورٹ میں صالحی پر روا رکھے جانے والے تشدد کی تفصیل بیان کی گئی تھیتصویر: picture-alliance/dpa/M. Shephard

صلاحی جو اب 44 برس کے ہو چکے ہیں ان پر کبھی کوئی جرم عائد نہیں کیا گیا۔ امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج جیمز رابرٹسن کے حکم پر انہیں 2010ء میں گوانتانامو بے سے رہائی ملی۔ عدالت کے سامنے حکومت ایک بھی ایسا ثبوت پیش نہ کر سکی کہ گرفتاری کے وقت صلاحی کا القاعدہ سے کوئی تعلق تھا۔

یہاں تک کہ فوجی استغاثہ بھی اس بات پر متفق ہیں کہ صلاحی پر کوئی جرم عائد نہیں کیا گیا تھا۔ ایک ملٹری استغاثہ نے تو ان کے خلاف اس وقت پیش ہونے سے انکار کر دیا جب اسے معلوم ہوا کہ صلاحی سے لیا گیا بیان دراصل تشدد کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق صلاحی 1990ء کی دہائی میں افغانستان کی جنگ میں اس وقت شریک ہوئے تھے جب القاعدہ وہاں کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس جدوجہد کو اس وقت امریکی مدد بھی حاصل تھی۔ صلاحی انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ کینیڈا میں بھی رہ چکے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ ان کا امریکا میں ہونے والے نائن الیون حملوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

صلاحی کو 2001ء میں موریطانیہ سے گرفتار کیا گیا جس کے بعد ان سے اردن میں تفتیش کی گئی اور انہیں آٹھ ماہ تک جبر و زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ جس کے بعد انہیں افغانستان میں قائم بگرام جیل بھیج دیا گیا اور پھر وہاں سے گوانتانامو بے کے لیے روانہ کیا گیا۔

2009ء میں امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کی جانب سے پیش کی گئی ایک رپورٹ میں صالحی پر روا رکھے جانے والے تشدد کی تفصیل بیان کی گئی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق صلاحی کو کئی ماہ تک قیدِ تنہائی میں رکھا گیا، سرد قید خانے میں بھی مقید کیا گیا، فرش پر جکڑا کر رکھا گیا، خوراک سے محرومی، نمک والا پانی پینے پر مجبور کرنا، کمرے میں زبردستی کھڑا رکھنا، تیز روشنیوں اور ہیوی میٹل موسیقی کئی گھنٹوں تک تیز آواز کے ساتھ سنوانے جیسی تکلیفوں کے علاوہ انہیں نماز پڑھنے کی اجازت نہ دینے کے ساتھ ساتھ مارپیٹ وغیرہ کا سامنا رہا۔ انہیں یہ جھوٹی خبر بھی دی گئی کہ ان کی والدہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور انہیں گوانتانامو بھیجا جا رہا ہے۔

صلاحی کی لکھی گئی کتاب امریکا کے علاوہ جرمنی، ہالینڈ، یونان، فِن لینڈ، اٹلی، سویڈن، برطانیہ، فرانس، ناروے سلوواکیہ اور ڈنمارک میں بھی فروخت کے لیے پیش کی گئی ہے۔