1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اجتماعی ریپ کی شکار خاتون کی موت اور اس کے خلاف مظاہرے

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
30 ستمبر 2020

اجتماعی جنسی زیادتی کی شکار 20 سالہ لڑکی کی موت کے بعد بھارتی دارالحکومت دہلی میں احتجاجی مظاہرے ہوئے، دوسری طرف متاثرہ خاندان کا الزام ہے کہ پولیس نے آخری رسومات کے لیے انہیں لاش تک نہیں دی۔

https://p.dw.com/p/3jD01
Indien Demonstration gegen den Tod eines Vergewaltigungsopfers in Neu Delhi
تصویر: Reuters/D. Siddiqui

ریاست اترپردیش کے ضلع ہاتھرس میں چند روز قبل جس 20 سالہ لڑکی کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کے ساتھ ساتھ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا وہ زخموں کی تاب نہ لاکر بالآخر دہلی کے ایک اسپتال میں کل چل بسیں۔ لیکن پولیس نے خاندان والوں لاش دینے کے بجائے لڑکی  کی آخری رسومات بڑی خاموشی کے ساتھ ادا کردیں۔

 خیال رہے کہ بھارت میں انتہائی پسماندہ سمجھے جانے والے دلت خاندان سے تعلق رکھنے والی متاثرہ لڑکی کو نام نہاد اعلی ذات کے لوگوں نے نشانہ بنایا تھا اورجنسی زیادتی کے بعد ان کی زبان کاٹ دی تھی اور پیٹھ کی ہڈیاں توڑ دی تھیں۔ ان کے جسم کے بیشتر اعضاء ٹوٹے ہوئے تھے اور انہیں انتہائی نازک حالت میں دہلی کے ایک ہسپتال میں بھرتی کرا یا گیا تھا۔

ہسپتال کے باہر زبردست سکیورٹی تھی اس کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے متاثرہ لڑکی کو انصاف دلانے کے لیے احتجاجی مظاہرہ کیا جو دیر رات تک جاری رہا۔ مظاہرین نعرے لگا رہے تھے کہ جنسی زیادتی کرنے والوں کو پھانسی دو۔ اس ہنگامہ آرائی کے دوران ہی پولیس نے بڑی خاموشی سے رات میں لاش کو اسپتال سے باہر نکالا اور ان کے آبائی گاؤں پہنچا دیا۔ تاہم آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے لاش اہل خانہ کو دینے کے بجائے بدھ کی علی الصبح ڈھائی بجے کے قریب پولیس نے خود ہی آخری رسومات ادا کردیں۔

متاثرہ لڑکی کا بھائی اور والد احتجاجی دھرنے پر بیٹھے تھے تاہم پولیس انہیں بھی اپنے ساتھ لے گئی اور جب گاؤں والوں کو پتہ چلا کہ پولیس خود ہی آخری رسومات ادا کرنے جارہی ہے تو گاؤں والوں نے اس کی مخالفت کی لیکن پولیس نے اس پر قابو پالیا۔ متاثرہ لڑکی کے اہل خانہ نے بھارتی میڈیا سے بات چیت میں کہا انہوں نے پولیس سے بڑی منت سماجت کی تاہم ان کی ایک بھی نہیں سنی گئی۔

آٹھ سالہ آصفہ کا ریپ اور قتل، بھارت سراپا احتجاج

 لڑکی کے والد کا کہنا تھا، ''ہم چاہتے تھے کہ آخری رسومات ہندو روایات کے مطابق کریں لیکن ہمارے تمام تر احتجاج کے باوجود اسے جلا دیا گیا۔ انہوں نے لاش ہم سے زبردستی چھین لی۔ ہم تو اپنی بیٹی کا آخری بار چہرہ بھی نہیں دیکھ سکے۔''

پولیس پر الزام ہے کہ اس نے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اس طرح کی کارروائی کی تاکہ اس واقعے کے خلاف مظاہرے اور تیز نہ ہو جائیں۔ پولیس حکام کا کہنا کہ متاثرہ لڑکی نے موت سے قبل جو بیان دیا تھا اس کی بنیاد پر ان کے گاؤں کے ہی چار نام نہاد اعلی ذات کے لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ متاثرہ لڑکی اپنی ماں کی مدد کے لیے کھیت پر گئی تھیں اور تبھی ملزمین نے ان کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کی اور ان پر تشدد کیا۔

اس واقعے کے بعد سے پولیس کے رویے اور حکومت کی لاپرواہی پر شدید نکتہ چینی ہو رہی ہے۔ کانگریس پارٹی کی رہنما پریانکا گاندھی کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت امن و قانون بحال کرنے میں ناکام رہی ہے اور اتر پردیش میں خواتین کے ساتھ تشدد کے واقعات تقریبا ہر روز ہی پیش آتے ہیں۔ انہوں نے موجودہ واقعے کے تناظر میں وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔   

 ادھر ریاست کے وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ نے اس کیس کی تیز رفتار تفتیش اور مقدمے کی سماعت کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ قدم وزیر اعظم نریندر مودی کی مداخلت کے بعد اٹھایا گیا ہے جس میں انہوں نے قصورواروں کو سزا دینی کی بات کہی تھی۔   

سماجی کارکن رنجنا کماری کا کہنا ہے کہ ریاست یوپی میں جب سے یوگی حکومت آئی اس وقت سے  دلتوں اور خواتین کے خلاف اس طرح کے واقعات میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''اس کے لیے خواتین آسان نشانہ ہیں، انہیں ریپ کیا جاتا ہے، انہیں برہنہ کیا جاتا ہے اور پھر کئی واقعات میں تو اس کے بعد انہیں قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔ خواتین کے ساتھ ظلم وزیادتی پہلے بھی ہوتی تھی تاہم بی جے پی کی حکومت میں ایسی چیزوں کو بڑھاوا دیا جاتا ہے۔''

 محترمہ کماری کہتی ہیں حکومت ان کی روک تھام کے لیے سنجیدہ نہیں ہے اور خاص طور پر یوپی میں تو اس کی روک تھام کا کوئی میکنزم ہی نہیں ہے۔ ''آخر یوپی سے ہی مسلسل ایسی خبریں کیوں آرہی ہیں؟ ریاست میں لاقانونیت کا بول بالا ہے اور دوسری بات کہ سماج میں ایسی چیزوں کو مسلسل فروغ دیا جارہا ہے۔ یوپی میں جنگل راج ہے جہاں خواتین کے تحفظ کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ پولیس تو ایسی شکایتیں نظر انداز کر دیتی ہے تاہم ایسے دیگر سرکاری ادارے بھی کام نہیں کر رہے جہاں خواتین کم سے کم اپنی شکایت ہی درج کرا سکیں۔  

رنجنا کماری کہتی ہیں کہ یوپی میں خواتین کے تحفظ سے متعلق تمام حکومتی ادارے بند پڑے ہیں اور ریاستی سطح پر جو خواتین کمیشن ہوتے ہیں وہ بھی اس وقت یوپی میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کارروائی نہیں کرتی ہے اور مجرم کھلے عام گھوم رہے ہیں، بد معاشوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے۔

بھارت: گینگ ریپ کے ملزم کی رہائی پر احتجاج

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں