اجمل قصاب کو پھانسی کب ہو گی؟
7 مئی 2010بھارت میں موت کی سزا پر عمل درآمد ہونے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کا فوجداری قوانین کا نظام برسوں پرانا ہے۔ یہ برٹش راج میں لارڈ میکالے کا متعارف کردہ ہے۔ یہ نظام سن 1860میں منظور کیا گیا تھا۔ انڈین پینل کوڈ اور پاکستان پینل کوڈ کی کئی شقیں بھی ایک جیسی ہیں۔ کئی مقامات پر فرق نئی دستوری ترامیم کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔
پینل کوڈ اور پروسیجرل کوڈ کے مطابق فوجداری مقدمات میں موت کی سزا کا حکم اگر ماتحت عدالت صادر کرتی ہے، تو اُس کی توثیق اعلیٰ عدالت یعنی ہائی کورٹ سے ہونا لازمی ہے۔ ہائی کورٹ کی توثیق کے بعد پھر وہ قانونی عمل رہ جاتا ہے، جو رحم کی اپیلوں کے گرد گھومتا ہے۔
یہ اپیل پہلے سپریم کورٹ میں دائر کی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ اگر رحم کی اپیل مسترد کردے، تو آخری رحم کی اپیل صدر مملکت کے دفتر میں پیش کی جاتی ہے۔ یہ اپیل وزارت قانون کے توسط سے صدارتی دفتر پہنچائی جاتی ہے۔
پاکستان اور بھارت میں موت کی سزا کے منتظر افراد یہی طریقہء کار اختیار کرتے ہیں۔ اسی قانونی عمل کے دوران مروج اصولی طریقے سے کم و بیش ہی روگردانی کی جاتی ہے۔ ممبئی دہشت گردانہ واقعات کے واحد زندہ مجرم قرار پائے اجمل قصاب کو ماتحت عدالت سے موت کی سزا سنا دی گئی ہے۔ بھارت میں اب یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ کتنے برسوں میں اجمل قصاب کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے گا۔ محاورتاً کہا جا سکتا ہےکہ یہ ایک ملین ڈالر کا سوال ہے۔ اور اس کا جواب آسان نہیں ہے۔
اجمل قصاب کو جلد از جلد پھانسی کی سزا اسی وقت دی جا سکتی ہے اگربھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے جی بالا کرشنن از خود نوٹس لیتے ہوئے قصاب کے مقدمے کے حوالے سے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی اپیلوں کو جلد نمٹانے کی کوئی خاص ہدایت جاری کردیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بھارت کے اندر اعلیٰ پاکستانی عدالتوں کے ججوں کا از خود نوٹس لینے کا رویہ اور انداز متحرک و مستعمل نہیں ہے۔ بصورت دیگر اجمل قصاب کو کم از کم پانچ چھ سال تو انتظار کرنا ہی پڑے گا!
اس وقت بھی تین سو سے زائد موت کی سزا کے مقدمات سپریم کورٹ میں باری کے انتظار میں ہیں۔ مہاراشٹر ہائی کورٹ میں موت کی سزا کی توثیق کے مقدمے علٰیحدہ سے موجود ہیں، جو یقینی طور پر اپنی اپنی دائر کردہ تاریخوں کے حساب سے عدالتوں میں شیڈول کئے جاتے ہیں۔
ایسی صورت حال بھارتی صدر کے دفتر میں ہے، جہاں اس وقت 29 رحم کی اپیلیں صدر کے فیصلے کی منتظر ہیں۔ ان ہی میں سن 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے میں مجرم قرار دئے جانے والے افضل گورو کی رحم کی اپیل بھی ہے۔ بھارتی صدر کے دفتر میں افضل گورو کی اپیل کا نمبر 22 واں ہے۔ مشہور ڈاکو ویر اپن کے ساتھیوں سائمن، گھن پرکاش، مادایا اور بلوندر کو 21 پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے جرم میں دی جانے والی موت کی سزا کے خلاف دائر رحم کی اپیل کا نمبر 18واں ہے۔ بببر خالصہ لبریشن فورس کے دیوندر پال سنگھ کی اپیل 17 ویں نمبر پر ہے۔ دیوندر پال سنگھ کو خالصتان تحریک کے دوران نو افراد کو ہلاک کرنے کے جرم میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ آنجہانی سابق بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے قتل میں ملوث تین افراد بھی اپنی رحم کی اپیل پر فیصلے کے منتظر ہیں۔ اس اپیل کا نمبر 13 واں بتایا جاتا ہے۔
بھارتی وزیر داخلہ چدمبرم اس بارے میں پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ رحم کی اپیلوں کا فیصلہ اپنی ترتیب سے کیا جاتا ہے۔ اس مناسبت سے اجمل قصاب کو پھانسی گھاٹ تک پہنچنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں!
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: گوہر نذیر گیلانی