احتجاجی مظاہرین کا ریڈ زون کی طرف مارچ
19 اگست 2014پاکستانی فوج کے مسلح دستوں نے ریڈ زون میں ڈپلومیٹک انکلیو، پارلیمنٹ ہاؤس، وزیراعظم ہاؤس اور ایوانِ صدر کو چاروں اطراف سے گھیرے میں لے رکھا ہے۔
ریڈ زون کی جانب مارچ کرنے سے قبل تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے دھرنے کے شرکاء سے وعدہ لیا کہ وہ پرامن رہیں گے۔ انہوں نے اعلان کیا ان کے کارکن نہ تو اسمبلی کی عمارت کے اندرداخل ہوں گے اور نہ ہی کسی سرکاری عمارت پر قبضہ کریں گے۔ انہوں نے کہ وہ پُرامن طریقے سے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے بیٹھیں گے۔ عمران خان نے وزیر اعظم نواز شریف کو للکارتے ہوئے کہا کہ وہ فوج کے پیچھے چھپ نہیں سکتے۔
اس سے قبل عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری نے اپنے حامیوں پر مشتمل عوامی پارلیمان سے زبانی ووٹ حاصل کر کے ریڈ زون میں داخل ہونے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ کارکن پرامن رہیں اور کسی قسم کی پُر تشدد سرگرمی میں حصہ نہ لیں۔ انہوں نے انتظامیہ سے کہا کہ وہ ریڈ زون کی طرف جانے والے راستے سے کنٹینرز ہٹا دیں۔
اس سے پہلے وفاقی وزیر داخلہ نے ریڈ زون کی سکیورٹی فوج کے حوالے کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد فوج کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ریڈ زون میں فوجی اہلکاروں کی اضافی تعداد کو تعینات کر دیا گیا ہے۔
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق حکومت کی درخواست پر اسلام آباد کے ریڈ زون میں فوجی اہلکاروں کی اضافی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔ تاہم بیان میں اہلکاروں کی تعداد کے بارے میں نہیں بتایا گیا ہے۔
حکومتی حکمت عملی کے مطابق ریڈ زون کی حفاظت کے لیے سب سے پہلے پولیس، پھر ایف سی، اور اس کے بعد رینجرز نے صف بندی کر رکھی ہے۔ انتظامیہ نے پولیس کو مظاہرین کو ریڈ زون میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں فائر کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
اسلام آباد کے سرکاری ہسپتالوں میں بھی ہنگامی حالت کا نفاذ کر دیا گیا ہے اور عملے کی چھٹیاں منسوخ کر کے انہیں ہر صورت حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
خیبر پختوانخوا اسمبلی میں عدم اعتماد
ادھرآج منگل 19 اگست کو خیبر پختونخوا اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی ہے۔
صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور جے یوآئی (ف)کے رہنما مولانا لطف الرحمان کا کہنا ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے جمہوریت کے دفاع کے لیے تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ تحریک عدم اعتماد پر46 ارکان کےدستخط موجود ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز تحریک انصاف نے قومی اور تین صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ کے پی کے میں جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے اس سے متعلق یہ کہہ کر فیصلہ مؤخر کر دیا گیا تھا کہ اس بارے میں مشاورت جاری ہے۔ تاہم تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق وزیر اعلٰی پرویز خٹک اور ان کی کابینہ کے اراکین صوبائی اسمبلی سے استعفے دینے کے حق میں نہیں تھے۔
بعض سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے فوری طور پر صوبائی اسمبلی کی تحلیل کا خدشہ ختم ہو گیا ہے۔