احمد عمر سعید شیخ کو سیف ہاؤس میں منتقل کیا جائے، سپریم کورٹ
2 فروری 2021
2002 ء میں امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے بہیمانہ قتل کے مقدمے کے مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ کے خلاف عدالتی کارروائی اور پھر فیصلوں پر اپیلوں کا سلسلہ گزشتہ 18 برس سے جاری تھا۔ اس قتل کے ملزمان میں احمد عمر سعید شیخ کے علاوہ بھی تین افراد شامل تھے۔ ان ملزمان کے خلاف شواہد ناکافی ہونے کی بنا پر گزشتہ برس سندھ ہائی کورٹ نے ان سب کو بری کرنے کا حکم سنا دیا تھا۔ گزشتہ جمعرات کو پاکستانی سپریم کورٹ نے بھی سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی توثیق کر دی، جس پر امریکا نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس فیصلے کو 'دنیا میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے تمام افراد کی توہین‘ قرار دیتے ہوئے پاکستانی حکومت سے'اپنے قانونی آپشنز پر نظرثانی‘ کا مطالبہ کیا تھا۔
احمد عمر سعید شیخ کے والد نے، جو منگل کے روز عدالتی سماعت کے دوران موجود تھے، اپنے بیٹے کی جیل سے منتقلی کے عدالتی حکم کے بارے میں کہا، ''یہ کوئی مکمل آزادی نہیں بلکہ آزادی کی طرف ایک قدم ہے۔‘‘ احمد عمر سعید شیخ کو اس 'سیف ہاؤس‘ یا 'محفوظ گھر‘ سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہو گی تاہم اس کے بیوی بچے اسے ملنے آ سکیں گے۔
پاکستانی سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ احمد عمر سعید شیخ کو کسی آرام دہ رہائشی علاقے میں منتقل کیا جائے تاہم انہیں باہر کی دنیا سے منقطع ہی رکھا جائے گا۔
بریت کو ختم کرنے کی حتمی کوشش
حکومت پاکستان اور ڈینیئل پرل کے اہل خانہ نے سپریم کوررٹ میں اپیل دائر کی تھی کہ احمد عمر شعید شیخ کو بری کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔ پرل کے فیملی وکیل فیصل شیخ نے تاہم کہا کہ اس طرح کے نظر ثانی کے واقعات میں کامیابی کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں کیونکہ اسی سپریم کورٹ کے جج جنہوں نے عمر شیخ کی بریت کے احکامات جاری کیے، نظر ثانی کی اپیل کا جائزہ بھی وہی لیں گے۔ ادھر امریکی حکومت نے کہا ہے کہ وہ احمد عمر شعید شیخ کی بریت کا فیصلہ برقرار رکھے جانے کی صورت میں امریکا حوالگی کے لیے اس کی تلاش جاری رکھے گی۔
احمد عمر سعید شیخ امریکا کی نظر میں
امریکا میں احمد عمر سعید شیخ پر محض ڈینیئل پرل قتل کیس میں ہی فرد جرم عائد نہیں کی گئی بلکہ وہ 1994ء میں کشمیر کے منقسم خطے میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے ایک امریکی شہری کے اغوا میں بھی مبینہ طور پر شامل ہونے کے باعث ملزم مانا جاتا ہے۔ اغوا شدہ امریکی شہری بعد ازاں بازیاب ہو گیا تھا۔
سرکاری حفاظت والا محفوظ گھر
پاکستانی سپریم کورٹ کی ہدایت پر احمد عمر سعید شیخ کو حکومت کی طرف سے تحفظ والے جس محفوظ گھر میں رکھا جائے گا، وہاں اس کی 24 گھنٹے نگرانی کی جائے گی۔ زیادہ تر فوجی اہلکار اس کی نگرانی پر مامور ہوں گے۔ اسے اس گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ایسے سیف ہاؤسز کی جگہ اور پتا عموماً خفیہ رکھے جاتے ہیں تاہم پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے پاس ایسے ان گنت 'محفوظ گھر‘ موجود ہیں جو پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔
ک م / م م (اے پی)