احمدیوں پر حملے کی ذمہ داری طالبان پر عائد
30 مئی 2010شہر کے اعلیٰ انتظامی افسر سجاد بھٹہ نے خبررساں اداروں سے بات چیت میں کہا کہ اس دہشت گردانہ کارروائی کے نتیجے میں 70 افراد موقع پر ہی ہلاک ہوگئے تھے جبکہ باقی مختلف ہسپتالوں میں زخمی کی تاب نہ لاتے ہوئے لقمہء اجل بن گئے۔ انہوں نے بتایا کہ اس حملے کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔
دوسری جانب حکام نے ان حملوں کی ذمہ داری طالبان عسکریت پسندوں پر عائد کی ہے۔ واضح رہے کہ اس کارروائی میں شریک دو مبینہ حملہ آوروں کو خودکش جیکٹس کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا تھا۔ان میں سے ایک سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے جبکہ دوسرا حملہ آور زخمی ہے اور اسے ہسپتال میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔
صوبائی وزیرقانون رانا ثناء اللہ نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ ابتدائی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ ان حملہ آوروں کو وزیرستان میں ڈھائی ماہ تربیت دی گئی تھی۔ ’’یہ حملہ آور کوئی نو روز قبل لاہور پہنچے تھے، یہاں انہیں ان کے ساتھیوں نے اسلحہ اور موٹر سائیکلیں فراہم کیں۔‘‘
طالبان اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والی ایک شدت پسند تنظیم نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے اور دھمکی دی ہے کہ احمدیوں کے خلاف مستقبل میں بھی ایسی کارروائیاں کی جائیں گی۔
ہفتے کے روز سینکڑوں احمدیوں نے ہلاک شدگان کی آخری رسومات میں حصہ لیا۔ احمدیوں کے ایک مقامی رہنما خالد راجہ نے صحافیوں کو بتایا کہ احمدی برادری پرامن رہے گی اور احتجاج کے لئے سڑکوں پر نہیں آئے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ حکومت سے کسی طرح کا کوئی مطالبہ بھی نہیں کریں گے۔ 180 ملین آبادی کے ملک پاکستان میں تقریبا چار ملین احمدی آباد ہیں۔ پاکستانی دستور میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے اور اس کمیونٹی پر اس سے قبل بھی حملے دیکھنے میں آتے رہے ہیں، تاہم جمعہ کے روز پیش آنے والا واقعہ اپنی نوعیت کا شدید ترین تھا۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : شادی خان سیف