اخوان المسلمين کی طرف سے شام ميں حکومت مخالف مظاہروں کی حمايت
29 اپریل 2011شام ميں آج نماز جمعہ کے بعد ہزاروں مظاہرين نے ايک بار پھر صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کيا۔ يہ مظاہرے ملک کے تقريباً تمام بڑے شہروں ميں ہو رہے ہيں۔ ان مظاہروں ميں دراع شہر کی حمايت کے لئے بھی نعرے لگائے جارہے ہيں، جہاں ٹينک بردار فوج نے حکومت کے خلاف مزاحمت کو کچلنے کی کوشش کی تھی۔
شامی دارالحکومت دمشق کے مضافاتی علاقے صقبا سے ايک عينی شاہد نے بتايا کہ لوگ اس حکومت کا خاتمہ چاہتے ہيں۔ دراع ميں پچھلے ماہ شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے اب پورے ملک ميں پھيل گئے ہيں۔ شامی حکومت نے انہيں کچلنے کے لئے طاقت کا بے دريغ استعمال کيا ہے، جس کے نتيجے ميں تقريباً 500 افراد ہلاک ہوچکے ہيں۔
ايک شامی فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ دراع ميں مسلح دہشت گردوں نے ايک فوجی چوکی پر حملہ کر کے چار فوجيوں کو ہلاک کرديا اور دو کو پکڑ ليا ہے۔
آج جمعہ کو حمص اور ہما کے بڑے شہروں ميں بھی مظاہرے ہو ئے۔ شام کے سرحدی شہر لتاکيہ ميں فائرنگ کی آوازيں سنی گئيں۔
ديراع ميں فوجيوں نے لوگوں کو نماز جمہ پڑھنے يا احتجاج کے ليے جمع نہ ہونے دينے کے ليے ہوائی فائرنگ کی۔ ايک شخص نے خبر ايجينسی روئٹرز کو بتايا کہ اردگرد کے ديہاتوں سے درجنوں بسيں مظاہرين کو ديراع کی جانب لے جارہی ہيں۔عينی شاہدين کا کہنا ہے کہ عمارتوں کی چھتوں پر تعينات نشانہ باز،لوگوں کو باہر نکلنے سے روک رہے ہيں۔ وہ ہر متحرک شے پر گولی چلا رہے ہيں۔ انسانی حقوق کی ’انسان‘ نامی شامی تنظيم کے ڈائريکٹر وسام تعارف نے کہا کہ دمشق کے کئی مضافات ميں بھی چھتوں پر مسلح نشانہ بازوں کو ديکھا جا سکتا ہے۔
اس دوران شام کی جلاوطن مسلم تنظيم اخوان المسلمين نے، جسے سابق صدر حافظ الاسد کے دور ميں سيکولر تحريکوں کے ساتھ ساتھ بے رحمی سے کچل ديا گيا تھا اور جو اب تک ان احتجاجات سے دور رہی تھی، پہلی مرتبہ مظاہروں کی حمايت کی ہے۔
اردن کے ايک مسلم رہنما مقديسی نے کہا ہے کہ علوی عقيدے سے تعلق رکھنے والے صدر اسد کی حکومت کا خاتمہ سنی اکثريت والے ملک شام ميں شريعت کے نفاذ کی سمت ميں پہلا قدم ہوگا۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی نگران کونسل کا اجلاس آج جنيوا ميں جاری ہے جس ميں شام کی مذمت کی توقع ہے۔ اس اجلاس کی درخواست 10 يورپی ممالک،امريکہ،جاپان،ميکسيکو،جنوبی کوريا، سينيگال اور زمبيا نے کی تھی۔امريکہ کے تيار کردہ ايک قرادادی مسودے ميں مظاہرين کے خلاف شامی حکومت کے ہلاکت خيز تشدد کی مذمت کی گئی ہے۔ اجلاس ميں روس،چين، افريقی اور عرب ممالک نے امريکی قيادت ميں شام پر دباؤ کی مخالفت کی۔ روس نے شام ميں خانہ جنگی کے خطرے سے خبر دار کيا۔ شام نے کہا کہ اس نے شہری ہلاکتوں کی چھان بين کے ليے ايک کميشن قائم کر ديا ہے اور ہنگاموں کے ذمے دار تخريب کار ہيں۔
برسلز ميں يورپی يونين کے رکن ممالک کے نمائندے بھی شام پر پابندياں لگانے کے ليے صلح مشوروں ميں مصروف ہيں۔
رپورٹ: شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک