ادبی انعام بُکر پرائز جنوبی کوریائی ناول ’سبزی خور‘ کے لیے
17 مئی 2016اس جنوبی کوریائی ناول میں روایات کو رَد کرنے والی ایک عام سی خاتون کی کہانی تین مختلف زاویوں سے بیان کی گئی ہے۔ اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے ہان نے کہا، ’’میں سمجھتی ہوں کہ یہ اعزاز دے کر مجھے بہت عزت دی گئی ہے۔ یہ ناول ایک ایسی خاتون کے بارے میں ہے، جس کی خواہش ہے کہ وہ انسانی فطرت کے تاریک پہلو کے اثرات سے بچنے کے لیے ایک پودے کی شکل اختیار کر جائے۔‘‘
بُکر پرائز کی پچاس ہزار پاؤنڈ کی رقم پنتالیس سالہ ہان اور برطانوی مترجمہ ڈیبرا اسمتھ میں برابر برابر تقسیم کی گئی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اٹھائیس سالہ ڈیبرا اسمتھ نے اس ناول کا ترجمہ شروع کرنے سے تین ہی سال پہلے بائیس برس کی عمر میں کوریائی زبان سیکھنا شروع کی تھی اور یہ سرے سے پہلی کتاب ہے، جس کا انہوں نے ترجمہ کیا ہے۔
ہان کانگ جنوبی کوریا میں تو پہلے ہی مشہور ہیں لیکن اس انعام کی وجہ سے، جو پہلی مرتبہ کسی جنوبی کوریائی شہری کے حصے میں آیا ہے، اب اُن کی کتابیں عالمی منڈی میں بھی تیزی سے فروخت ہو سکیں گی۔
’سبزی خور‘ ہان کی پہلی کتاب ہے، جو انگریزی زبان میں شائع ہوئی ہے۔ اس ناول کی ادبی اہمیت اپنی جگہ، حقیقت یہ ہے کہ اس ناول کی کامیابی میں بہت سے دیگر عوامل نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ مثلاً لٹریچر انسٹیٹیوٹ آف کوریا (LTI) نامی ایک سرکاری ادارہ ہے، جس نے دَس ملین ڈالر کے بجٹ اور اپنے اَسّی ارکان پر مشتمل عملے کے ساتھ خود کو ملک کے نئے ادبی شاہکاروں کے تراجم کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ یہ ادارہ سالانہ ورکشاپس منعقد کرتا ہے، جس میں امریکا، روس، جاپان، سنگاپور اور برطانیہ سے غیر ملکی پبلشرز اور ایڈیٹرز کو خصوصی طور پر شرکت کے لیے جنوبی کوریا بُلوایا جاتا ہے۔ پھر نئے لکھنے والے ہیں، جو بین الاقوامی منظر نامے سے زیادہ آگاہی رکھتے ہیں۔ بہت ہی اہم کردار اہل اور قابل مترجمین کی ایک نئی کھیپ کا بھی ہے۔
سیول میں سرگرم ایک ادبی ایجنٹ جوزف لی نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اس ناول کو بُکر پرائز ملنے سے جنوبی کوریائی ادیبوں کو یہ تحریک اور اعتماد ملے گا کہ اُن کی تخلیقات بھی اب پوری دنیا تک پہنچیں گی۔ اسی طرح اشاعتی ادارے بھی اچھے اچھے ادیبوں کو تلاش کریں گے اور بین الاقوامی مارکیٹ کو نظر میں رکھتے ہوئے پُر زور ا نداز میں اُن کے شاہکاروں کی اشاعت پر توجہ مرکوز کریں گے۔