1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ادلب: مسلم شدت پسندوں کی صفوں میں درجنوں جرمن بھی شامل

10 فروری 2020

شام کے صوبے ادلب میں صدر اسد کی حکومت کے خلاف برسرپیکار باغیوں اور مسلم شدت پسندوں کی صفوں میں درجنوں جرمن بھی شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/3XWgE
تصویر: Getty Images/AFP/O. Haj Kadour

جرمن میڈیا کے مطابق شام کے صوبہ ادلب میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف برسرپیکار باغیوں اور اسلامی جہادیوں کی صفوں میں 60 سے زائد جرمن شہری بھی موجود ہیں۔

شام کا صوبہ ادلب شامی حکومت کے باغیوں کے کنٹرول میں وہ آخری علاقہ  ہے جہاں وہ اب بھی صدر بشار الاسد کے خلاف برسرپیکار ہیں جبکہ صدر اسد ادلب پر  کسی بھی طرح دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔ جرمنی کے ایک نشریاتی ادارے ’ایس ڈبلیو آر‘ کے مطابق اس علاقے میں 60 سے زائد جرمن شہری بھی جہادیوں کے ساتھ لڑائی میں شامل ہیں۔

اس سلسلے میں ’ایس ڈبلیو آر‘ نے سوشل میڈیا پر جنگجوؤں کی جانب سے بھیجےگئے بعض پیغامات کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایسے کچھ افراد کا تعلق ’حیات تحریر الشام‘ سے ہے جس کے مراسم شدت پسند تنظیم القاعدہ سے بتائے جاتے ہیں۔ اس کے مطابق کم سے کم ایک جرمن شہری شدت پسند تنظیم جند الاسلام  سے وابستہ ہے۔

ادلب میں زندگی تنگ ہوتی ہوئی

پیغام رسانی کے لیے استعمال ہونے والی ٹیلیگرام جیسی ایپ پر جنگجوؤں نے اپنے تحریری، صوتی اور ویڈیو پیغامات میں جرمنی میں اپنے حامیوں سے مالی امداد کی اپیل کی ہے۔ اس طرح کی ایک ویڈیو میں ایک نقاب پوش شخص کہتا ہے، ’’میرے بھائیوں، اگر آپ مدد کر سکتے ہیں تو بہت اچھی بات ہے۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے آپ خود جہاد میں شامل ہوں۔ اگر آپ جرمنی میں بھی ہیں تو، (چندہ دے کر) ایسا کر سکتے ہیں۔‘‘

شام میں جہادیوں کے حامیوں سے ویسٹرن یونین بینک یا پھر بِٹ کوائن جیسی کرپٹیوکرنسی کےذریعے ترکی میں موجود افراد  کو پیسہ پہنچانے کے لیے کہا جاتا ہے۔ جرمن حکام کا کہنا ہے کہ انہیں اس طرح کی سرگرمیوں کا پہلے ہی سے علم ہے اور کرپٹیوکرنسی کی مدد سے شدت پسندی کی مالی اعانت کی وہ کافی پہلے سے ہی نگرانی کرتے رہے ہیں۔

شام کا شمال مغربی صوبہ ادلب وہ آخری مقام ہے، جہاں باغیوں اور شدت پسندوں کا قبضہ ہے۔ بشارالاسد اس صورتحال کو اپنی حکومت کے حق میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ روسی فضائیہ کے تعاون سے شامی دستے کئی علاقوں پر کنٹرول واپس حاصل کر چکے ہیں۔ صدر اسد خود اس لڑائی کو اپنی حکومت کے لیے آخری معرکہ قرار دیتے ہیں۔

چند روز بعد ہی شامی تنازعہ اپنے دسویں سال میں داخل ہو جائے گا۔ اس دوران بشارالاسد عسکری حوالے سے ایک فاتح کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اب ادلب ان کے نرغے میں ہے اور اس کامیابی کی صورت میں پورے شام پر دوبارہ کنٹرول کا ان کا منصوبہ پورا ہو جائے گا۔ اس خطے کو دمشق حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کرنے کے لیے شامی فوج اور روسی فضائیہ اکثر عام شہریوں اور عسکریت پسندوں میں کوئی فرق نہیں کرتیں۔

ص ز / ج ا (کرسٹی پلاڈسون)