1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اربیل:امریکی فوجی اڈے کے قریب راکٹ حملہ

15 اپریل 2021

گوکہ فی الحال کسی نے اس راکٹ حملے، جس کی دھماکے کی آواز پورے شہر میں سنائی دی، کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم وسط فروری میں اسی طرح کے ایک حملے کے لیے ایران نواز گروپ کو مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/3s2gL
Irak | Raketenangriff auf Erbil
تصویر: Azad Lashkari/REUTERS

عراقی کردستان کے دارالحکومت اربیل میں ہوائی اڈے کے قریب واقع امریکی فوجی اڈے کو بدھ کی شام راکٹ کا نشانہ بنا یا گیا۔ اس حملے میں پہلی مرتبہ ڈرون کا استعمال کیا گیا۔ اربیل کے گورنر کا کہنا ہے ”اس حملے میں کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا ہے۔"

جس وقت امریکی فوجی اڈے کے قریب راکٹ حملہ ہوا اسی کے آس پاس ترکی کے مشرقی شہر بشیقہ سے تقریباً پچاس کلومیٹر دور ایک فوجی اڈے پر بھی راکٹوں سے حملہ کیا گیا جس میں ایک ترک فوجی ہلاک ہوگیا۔ تاہم ان دونوں حملوں کے درمیان کسی طرح کے تعلق کی فوری طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

اربیل میں ہونے والا راکٹ حملہ امریکی فورسز کے خلاف ڈرون کے استعمال کا پہلا واقعہ بتا یا جا رہا ہے۔ امریکی فورسز اور بغداد میں امریکی سفارت خانے پر راکٹ حملے ہوتے رہے ہیں اور واشنگٹن ان کے لیے ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔

کرد خطے کے وزیر اعظم مسرور برزانی نے ترک وزیر خارجہ مولو د چاوش غلو کے ساتھ بات چیت کے بعد ایک ٹوئٹ میں کہا”ہم اربیل اور بشیقہ میں دہشت گردانہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔"  انہوں نے مزید کہا کہ اس واقعے کی تفتیش میں ہم ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔

Ministerpräsident des irakischen Kurdistan, Masrour Barzani
مسرور برزانیتصویر: Reuters/A. Lashkari

اربیل ہوائی اڈے پر ڈرون حملے کی ذمہ داری فوری طورپر کسی نے قبول نہیں کی ہے تاہم فروری میں اسی ہوائی اڈے پر اسی طرح کے حملے کا دعوی کرنے والے ایرانی نواز گروپ اولیہ الدم نے میسیجنگ ایپ ٹیلی گرام پر ایک بیان میں اس حملے کی تعریف کی ہے۔

عینی شاہدین نے بتایا کہ حملے کے بعد ہوائی اڈے جانے والے تمام راستوں پر سکیورٹی حصار لگا دیا گیا ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا”امریکا عراقی کردستان خطے میں ہونے والے حملوں کی خبروں سے سخت ناراض ہے۔"  انہوں نے مزید کہا کہ عراقی عوام اس طرح کے تشدد کے واقعات اور اپنی خود مختاری کی خلاف ورزی سے ایک عرصے سے دو چار ہیں۔

رواں برس جنوری میں صدر جو بائیڈن کے امریکی صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے عراق میں امریکی فوجیوں کے اڈوں اور سفارت کاروں کی رہائش گاہوں کو نشانہ بناتے ہوئے تقریباً بیس بم یا راکٹ حملے ہو چکے ہیں۔ جب کہ پچھلے اٹھارہ مہینوں میں ایسے درجنوں حملے ہوئے ہیں۔

پندرہ فروری کو اربیل ہوائی اڈے کے اندر واقع ملٹری کمپلکس کو ایک درجن سے زائد راکٹوں سے نشانہ بنایا گیا تھا جس میں ایک عراقی شہری اور امریکی فوج کے لیے کام کرنے والا ایک غیر ملکی کانٹریکٹر مارا گیا تھا۔

Proteste bei der US-Botschaft in Baghdad
مشتعل عراقیوں کا عراق میں امریکی سفارت خانے پر حملہتصویر: picture-alliance/dpa/AA/M. Sudani

 امریکا ان حملوں کے لیے ایران نواز گروپوں کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ واشنگٹن اور تہران گوکہ دونوں ہی بغداد کے اتحادی ہیں تاہم ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ان میں شد ید اختلافات ہیں۔

عراق کے سابق وزیر خارجہ اوراہم کرد سیاسی رہنما ہوشیار زیباری نے اربیل حملے میں ایران نواز گروپ کے ہاتھ ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں کہا”ایسا لگتا ہے کہ اسی ملیشیا نے دوبارہ حملہ کیا ہے جس نے دو ماہ قبل بھی ہوائی اڈے کو نشانہ بنا یا تھا۔"

ایران نواز گروپوں نے حالیہ دنوں اپنی بیان بازی تیز کردی ہے اور ”قابض" امریکی فورسز کو نکال باہر کرنے کے لیے حملے تیز کر دینے کا اعلان کیا ہے۔ خیال رہے کہ کوئی ایک برس قبل عراقی پارلیمان نے امریکی فورسز کو ملک سے نکال دینے کی تجویز منظور کی تھی۔

امریکا نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ اپنی تمام افواج عراق سے نکال لے گا تاہم دونوں ملکوں کے درمیان اس حوالے کسی وقت کا تعین نہیں ہو سکا ہے۔

ج ا/ ص ز  (اے ایف پی، روئٹرز)

     

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں