اردن، مہاجر بچوں کے اسکول جانے میں مشکلات
16 اگست 2016خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے ہیومن رائٹس واچ کی ایک تازہ رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اردن میں مہاجر بچوں کو اسکولوں میں داخلے کے لیے خصوصی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جبکہ ایسے بچوں کی شادیوں کے روکنے کی کوشش بھی کی جانی چاہیے۔
اس ادارے نے کہا ہے کہ اردن کی حکومت کو اس حوالے سے اپنے قواعد و ضوابط میں تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ تعلمی سال کے دوران زیادہ سے زیادہ بچوں کو تعلیم کی سہولیت میسر آ سکے۔ ہیومن رائٹس واچ نے بتایا ہے کہ اردن میں موجود مہاجر بچوں میں سے ایک تہائی اسکول میں رجسٹرڈ نہیں ہو سکے ہیں۔
اردن میں ایسے مہاجرین جو باقاعدہ کیمپوں میں نہیں رہتے، انہیں اپنے بچوں کو اسکول میں رجسٹر کرانے کے لیے خصوصی ’سروس کارڈز‘ دکھانے ہوتے ہیں، جو وزارت داخلہ جاری کرتی ہے۔
تاہم ایسےمہاجرین جو جولائی سن 2014 میں عارضی پناہ گاہوں کو باقاعدہ طریقے سے چھوڑ چکے ہیں، انہیں مزید ایسے کارڈز جاری نہیں کیے جاتے۔ ایسے مہاجرین کو صرف اسی صورت میں ’سروس کارڈ‘ جاری کیے جاتے ہیں، جب اردن کا پینتیس سال سے زائد عمر کا کوئی شہری ان کی ضمانت دے۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جب مہاجرین سے متعلق پرانے قواعد تبدیل نہیں کیے جاتے، وہاں موجود مہاجر بچوں کو تعلیم کے حصول میں رکاوٹیں برقرار رہیں گی، ’’ان پرانے قوانین کے مطابق ایسے مہاجر بچوں کو بھی اسکول میں جگہ نہیں مل سکتی ، جو تین برس یا اس سے زائد عرصے سے کسی اسکول میں رجسٹر نہیں ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے اعداد و شمار کے مطابق اردن میں مجموعی طور پر دو لاکھ چھبیس ہزار ایسے بچے رجسٹر ہیں، جن کی عمریں اسکول جانے والی ہیں۔ تاہم ان میں سے اسّی ہزار بچے گزشتہ برس اسکول میں رجسٹر نہیں ہو سکے تھے۔
ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ میں مہاجر بچوں کی شادیوں پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سن 2011 کے اعداد وشمار کے مقابلے میں اب اردن میں مقیم شامی مہاجرین میں بچوں کی شادیوں کی شرح میں بارہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ شرح اس وقت بتیس فیصد بتائی گئی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اردن میں بالخصوص مہاجر لڑکیوں کی صورتحال زیادہ تشویشناک ہے، جن کے والدین انہیں خوف کے مارے اسکول بھیجنے سے کتراتے ہیں۔ عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق شام میں خانہ جنگی سے قبل وہاں 22.4 ملین نفوس آباد تھے، جن میں سے 4.8 ملین تشدد اور شورش کے باعث ملک سے فرار ہو چکے ہیں جبکہ 8.7 ملین افراد شام کے اندر بھی بے گھری کا شکار ہیں۔