ارمچی فسادات کے دس برس، ایغور کی پریشانیوں میں اضافہ
5 جولائی 2019پانچ جولائی 2009ء کے فسادات ایغور طلبہ کی جانب سے ایک پر امن احتجاج کے بعد شروع ہوئے تھے یہ طلبہ ایغور برادری سے تعلق رکھنے والے ان دو فیکٹری ملازمین کی ہلاکت کی وضاحت کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ہان نسل کے چینیوں اور ایغور برادری کے مابین لڑائی پحیس جون 2009ء کو اس وقت شروع ہوئی، جب انٹرنیٹ پر کسی نامعلوم ذرائع سے یہ خبر پھیلی کہ کھلونے بنانے والی ایک فیکٹری میں ہان نسل کی دو خواتین کو چھ ایغور باشندوں نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔
ان واقعات کے بعد بیجنگ حکومت نے اس خطے میں ایغور نسل کے خلاف کارروائی شروع کی، جو آج بھی جاری ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا خطے کے ڈائریکٹر بیرڈ ایڈمز کے مطابق، ''دس سال بعد بھی بیجنگ حکام نے دیگر ممالک کی حکومتوں، بین الاقوامی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے سوالات کے جوابات نہیں دیے ہیں۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ لاپتہ ہونے والے اور حراست میں لیے جانے والوں کی اصل تعداد کتنی ہے۔‘‘
ان واقعات کے بعد ایغوروں کی ایک بڑی تعداد نقل مکانی پر مجبور ہوئی۔ ان میں سے ایک اکیس سالہ عرفات ایریکن بھی ہیں، جو آج کل امریکا میں مقیم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں ابھی بھی یاد ہے کہ پانچ جولائی کو انٹرنیٹ رابطہ منقطع کر دیا گیا تھا اور ان کے والد نے ان سے کہا تھا کہ وہ گھر سے باہر نہ نکلیں،'' مجھے رات کو پولیس کے سائرن کی آوازیں یاد ہیں۔‘‘
ارمچی کا احتجاج کس طرح فسادات میں تبدیل ہوا یہ غیر واضح ہے۔ تاہم ہان نسل اور مسلمان ایغوروں کے مابین ان فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 192 افراد ہلاک ہوئے جبکہ زخمیوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔ تاہم آزاد ذرائع یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ بتاتے ہیں۔
سنکیانگ مغربی چین کا بہت زیادہ رقبے والا ایسا صوبہ ہے، جس کی سرحدیں روس، منگولیا، قزاقستان، کرغیزستان، تاجکستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت سے ملتی ہیں۔ اس علاقے میں تیل اور قدرتی گیس کے بے تحاشا ذخائر موجود ہیں۔ یہاں کی مقامی ایغور آبادی مجموعی طور پر بہت پسماندہ ہے۔